Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 16 ستمبر، 2017

    ضیائی تالیف اور سرخ بونے

    ضیائی تالیف پر طبیعی طور پر سرخ بونے ستاروں کی طرف سے لگائی گئی حد بندیاں 

    سرخ بونوں کے نجمی قابل سکونت علاقوں کے اندر وہ تمام جہاں جو مدار میں چکر لگا رہے ہوں گے وہ ان سے ثقلی طور پر مقید ہوں گے۔ آسمان پر ایک ثابت روشنی کا منبع روئیدگی کی نگہبانی پر ایک منفرد جغرافیائی رکاوٹوں کو عائد کرے گا۔ وہ پودے جو زیادہ تابانی کی جگہ کے نیچے ہوں گے (ذیلی نجمی جگہ) ان کو براہ راست اوپر سے آنے والی اشعاع سے مقابلہ کرنا ہو گا۔ کسی بھی اوپر چڑھی ہوئی پتیوں کے بافتوں کے سائے ان بافتوں میں ہونے والی ضیائی تالیف پر حد یا رکاوٹ ڈال دیں گے اگر وہ بصری روشنی سے ہو رہی ہو گی۔ 

    زمین پر ارضی پودے اپنے پتیوں کو سورج کی طرف بعینہ ایسے موڑتے ہیں جیسے کہ جہاز بدلتی ہوا کے جھونکے سے اپنا بیڑا حرکت دیتا ہے۔ بہرحال ارغونی جہاں کا سورج آسمان میں ایک مستقل جگہ پر ہو گا، لہٰذا اس طرح کے سائے سے بچنا ممکن نہیں ہو گا۔ روشنی اور سائے مستقل خصوصیات ہوں گے، کبھی بھی وقت کے ساتھ نہیں بدلیں گی؛ لہٰذا اگر پودوں کو روشنی کے لئے مقابلہ کرنا ہو گا تو ان کو طبیعی طور پر سائے دار رکاوٹوں کے ارد گرد حرکت کرنا ہو گا۔ یہ کچھ حیرت انگیز ارتقائی دوڑ کو شروع کر سکتی ہے کیونکہ پودے روشنی کو حاصل کرنے کی بالا دستی کے لئے لڑیں گے۔ 

    جب ذیلی نجمی جگہ (ایس ایس پی) سے فاصلہ بڑھے گا، تابانی بتدریج اتھلے زاویوں سے آئے گی، جس سے وہ خاکی پودوں کو اپنی شاخوں اور پتیوں کو اس طرح سے ٹھیک کرنے کے لئے چھوڑ دے گی کہ پتیوں کی سطح ضمنی روشنی کے 90 درجے پر اپنا مقام بنائیں۔ ایک مرتبہ پھر نہ صرف کسی بھی جغرافیائی خاصیت سے ہونے والے سائے بلکہ کوئی بھی راستے میں آنے والے پودے یا جانور ان بافتوں میں ضیائی تالیف میں رکاوٹ بنیں گے۔ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کوئی بھی جدید رہائشی نوع پودوں کی پتیوں کے زاویے کا استعمال کر کے اپنے عرض البلد کا حساب لگا سکتی ہے اور اس بات کی جلدی ہی تصدیق کر سکتی ہے کہ وہ ایک کرہ پر رہ رہے ہیں۔ کوئی بھی تصور کر سکتا ہے کہ قنطروسی مقامی پودوں کے پتیوں کے زاویوں کا استعمال کر کے اپنے گھریلو جہاں کے قطر کا تعین بعینہ اسی طرح کر سکتا ہے جیسا کہ ارسطو نے اسکندریہ اور سائینی (اسوان) میں لکڑیوں کے استعمال سے کیا تھا۔ 

    مزید براں، کوئی بھی جغرافیائی خاصیت جیسا کہ پہاڑوں کے سلسلے روشنی کو سطح پر پہنچنے سے روک دیں گے۔ اس طرح سے سست انحطاط اور تکوین جبال کا بہاؤ اور کٹاؤ ختم کر کے زمین کے خطوں کی تجدید کسی بھی قسم کی ضیائی تالیفی جانداروں کی نوع کی آباد کاری کے لئے کرے گا۔ تختیوں کی ہلکی حرکت بھی آہستہ تاہم متواتر پودوں کی زندگی کی باز مطابقت بدلتی روشنی کی سطح کے لئے نسل در نسل لازمی کر دے گا کیونکہ ان کے ٹھکانے پورے کرے میں تیرتے رہیں گے۔ 

    مستقل روشنی کی جگہ کے جواب میں، خشکی کے پودے ہو سکتا ہے کہ طبیعی طور پر گشتی ہوں، غالباً خشکی پر اپنے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کے جواب میں آہستگی سے حرکت کرتے ہوں۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ پودے طبیعی طور پر خشکی سے ایسے ہی بندھے ہوں گے جیسا کہ ہمارے، تو جغرافیائی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے سادے طور پر ہوا سے اڑنے والے بیج یا تخم پیدا کرنا ہو گا جو جانداروں کی جینیاتی وراثت کو ایک مقام سے دوسرے مقام تک جانے میں مدد کریں گے۔ واضح طور پر زمین پر اس کا کوئی نقصان نہیں ہے، جہاں پودے فوری ایسے نئے علاقوں کو بھی آباد کرتے ہیں جہاں بیج کا ذریعہ کافی فاصلے پر موجود ہو۔ زمینی پودے جانداروں کا استعمال کر کے اپنے بیجوں کو منتقل کر کے بھی علاقوں کو آباد کر دیتے ہیں، اس کے لئے یا تو وہ خود سے جانوروں کے ساتھ چپک جاتے ہیں یا جانوروں کو ترغیب دیتے ہیں کہ ان کا پھل کھائیں۔ مؤخر الذکر حکمت عملی کا فائدہ یہ ہے کہ ان کے بیج کھادی فضلے میں پھیل جاتے ہیں۔ 

    آخری بات، غالب سرخ روشنی نیلی روشنی سے اس وقت الگ برتاؤ کرتی ہے جب وہ کسی بھی قابل رہائش جہاں کے کرۂ فضائی سے آر پار ہو گی۔ سرخ روشنی ہوا میں موجود ذرّات سے نیلی روشنی کے مقابلے میں کم مؤثر طور پر منتشر ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پودے جو مختتم سے قریب ہوں گے وہ اس جہاں سے نسبتاً کم بصری روشنی وصول کریں گے جہاں کی روشنی اگر نیلی مائل ہو۔ اس طرح سے کار آمد اشعاع کی مقدار جو پودوں کے استعمال کے لئے ہو گی وہ روشنی کے منبع میں ہمارے اپنے جیسے ستارے میں پائی جانے والی کے مقابلے میں ایس ایس پی نقطے سے فاصلے پر تیزی سے کم ہو گی۔ 

    بہرحال، مستقل سورج کا اثر کم کڑا ہو گا جب ضیائی تالیف بصری روشنی کے مقابلے میں زیریں سرخ روشنی سے ہو گا۔ بصری روشنی کے برعکس، زیریں سرخ اشعاع نہ صرف ہر اس سطح سے جو مرکزی ستارے سے گرم ہوتی ہو بلکہ ستارے سے گرم ہونے والے کرۂ فضائی میں پائے جانے والے سالمات اور ذرّات سے بھی خارج ہوتی ہے۔ زمین جیسے سیارے پر، جو پیلے ستارے سے روشن ہے، زیریں سرخ اشعاع کی کثیر مقدار جو کرۂ فضائی میں جذب ہو جاتی ہے وہ سیارے کی روشن سطح سے آتی ہے۔ یہ بنیادی طور پر زیادہ تر بصری روشنی کو جذب کر کے بعد میں دوبارہ طویل زیریں سرخ طول امواج میں اخراج کرتا ہے۔ جی ہاں، سورج سے بھی زیریں سرخ اشعاع آتی ہیں، تاہم یہ سرخ بونے ستاروں سے آنے والی کل نجمی پیداوار کے مقابلے میں بہت چھوٹا حصّہ بناتی ہیں۔ 
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: ضیائی تالیف اور سرخ بونے Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top