Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    اتوار، 17 ستمبر، 2017

    روشنی اور حیات

    چنانچہ کوئی بھی جہاں جو سرخ بونے کے گرد چکر لگا رہا ہو گا وہ زیریں سرخ اشعاع میں ڈوبا ہوا ہو گا۔ یہ ستارے، سیاروی سطح اور کرۂ فضائی سے آ رہی ہو گی۔ کوئی بھی ضیائی تالیفی جاندار جو زیریں اشعاع کا استعمال کرتا ہے وہ توانائی کو تقریباً ہر جگہ سے ہی حاصل کر سکتا ہے ؛ اس لئے سائے کا کم اثر ہو گا کیونکہ پودا تمام اطراف سے اشعاع میں نہایا ہوا ہو گا۔ لہٰذا اصولی طور پر اگر پودے خاصی زیریں سرخ اشعاع کو جذب کرنے کے لئے مطابقت اختیار کر لیتے ہیں، تب وہ اس وقت بھی زندہ رہ سکتے ہیں جب ان کے اور براہ راست سورج سے روشنی کے درمیان کوئی سایہ بھی ہو (خاکہ۔ 8.6)۔

    پانی میں بصری روشنی کے بکھرنے اور انعطاف کا اثر ہوا سے زیادہ پانی میں ہوتا ہے۔ آبی پودوں اور ضیائی تالیفی یک خلوی جانداروں کو زندہ رہنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ زمین کے مقابلے میں پانی کے اوپری حصّے کے قریب نمو پائیں۔ ایک مرتبہ جب ضیائی تالیفی پیداوار ہمارے سیارے کی سطح پر پائے جانے والے 1 فیصد تک آ جائے، تو ضیائی تالیف سے ہونے والے خوراکی سالمات کی پیداوار عمل تنفس میں خرچ ہونے کے برابر ہو جائے گی۔ اس مرحلے پر پہنچ کر اپنے سورج کی روشنی سے زندہ رہنے کی کوشش کرتا ہوا کوئی بھی پودا یا جراثیم اتنی خوراک پیدا نہیں کر سکتا کہ اپنے آپ کو باقی رکھ سکے۔ وہ گہرائی جس پر یہ عبوری مرحلہ پہنچ جاتا ہے وہ ضیائی کھڑکی کہلاتا ہے۔ زمین پر عام طور پر یہ کھلے سمندر میں 200 میٹر کی گہرائی میں ہوتی ہے۔ بہرحال ساحلی علاقوں کے قریب جہاں جراثیمی نمو کے لئے متصل زمین سے تلچھٹ یا نامیاتی مادّے گرتے ہیں یہ گہرائی میں 15 میٹر سے بھی کم ہو سکتی ہے۔ 

    بدقسمتی سے طیف (اسپکٹرم) کی سبز اور پیلی روشنی سب سے زیادہ سرایت کرنے والی ہیں، جبکہ کارآمد سرخ اور نیلی روشنی مؤثر طور پر اس طرح کی گاد سے رک جاتی ہے۔ سبز اور پیلی روشنی بصری طیف (اسپکٹرم) کے ٹھیک وہی علاقے ہیں جن کو ارضی پودے سب سے کم استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا ان کا کوئی اصل فائدہ زمین پر پائے جانے والے کسی بھی پودے یا ضیائی تالیفی جراثیم کو نہیں ہوتا۔ زیریں سرخ اشعاع پانی میں اور کم سرایت کرنے والی ہوتی ہے۔ لہٰذا خرد بینی جسیمے جو محض اس طرح کی اشعاع کے لئے ڈھلے ہوئے ہیں ان کا پانی کے بہت ہی اوپر یا متصل زمین تک ہی محدود ہونے کا امکان ہے۔ 

    یہاں ایک دلچسپ نکتہ ہے۔ بہت سے لوگ اس بات سے آگاہ ہیں کہ زمین پر آکسیجن کی پیداوار کا 25 فیصد ایمیزون کے برساتی جنگلات سے آتا ہے۔ بہرحال چند ہی اس بات سے آگاہ ہوں گے کہ یہ پیداوار عمل تنفس میں استعمال کرنے کے لئے جنگلات میں دوبارہ سے جذب ہو جاتی ہے۔ اس کے بجائے، زمین اپنی زیادہ تر آکسیجن سمندروں سے - کائی اور جراثیم سے حاصل کرتی ہے جو اس کی رو پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ سرخ بونے کے سیارے پر، ایک سمندر جو ضیائی تالیفی حیات کے لئے بہت زیادہ گدلا ہو ایسے سیارے کو بنائے گا جو ٹھیک طرح سے آکسیجن سے آزاد ہو۔ مزید براں، ضیائی تالیف پہلے سمندر میں یا خشکی پر موجود پانی کے اجسام میں ارتقاء پذیر ہو گا۔ قیاس کیا جا سکتا ہے کہ یہ ارغونی جہاں کے لئے ناممکن ہو گا بشرطیکہ ضیائی تالیف کو روک دیا جائے یا ان جہانوں کے سمندروں میں وہ موجود ہی نہ ہو۔ یہ اس طرح کے جہانوں میں ضیائی تالیف کے وقوع پذیر ہونے کی ایک اور رکاوٹ ہے۔ 

    خاکہ۔ 8.6 ہوا اور پانی میں ذرّات کی وجہ سے روشنی کا بکھرنا۔ نیلی روشنی سرخ روشنی کے مقابلے میں زیادہ مؤثر طریقے سے بکھرے گی، کیونکہ نیلی روشنی کی طول موج زیادہ تر ذرّات کے حجم کی ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، سرخ روشنی کی امواج اس کے گرد بن جاتی ہیں۔ اثر وضاحت کرتا ہے کہ ہمارا آسمان نیلا کیوں ہے اور غروب آفتاب سرخ کیوں ہوتا ہے۔ پانی کے تودے میں روشنی مؤثر طور پر منعطف ہوتی ہے تاکہ جب آپ نیچے اتریں تو وہ تیزی سے تاریک ہو جائے۔ یہ اس گہرائی پر حد لگاتی ہیں جہاں ضیائی تالیف وقوع پذیر ہو سکتا ہے 

    ایک بار پھر، اگرچہ نوری کھڑکی کی گہرائی نے سرخ بونے جہاں میں رہنے پر پابندی عائد کر دی ہے تاہم وہ اس میں مانع نہیں ہوتا۔ ہمارے سمندروں کی گہرائی تاریک ہے، اور وہاں پودوں کی کوئی حیات موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود سمندر کافی گہرائی پر بھی بمشکل ہی بنجر ہیں۔ ہمارے سمندروں کے فرش پر پھیلے ہوئے غیر مختتم تحت الثُریٰ میدان صفائی کرنے والے، تحلیل کرنے والے اور خرد جسیموں سے آباد ہیں جو ارضیاتی عمل سے توانائی حاصل کرتے ہیں جیسا کہ آتش فشانی سرگرمی۔ سمندر کا ایک گہرا حصّہ جو روشنی کے لئے غیر شفاف ہے حیات کو پھیلنے سے روک نہیں سکا۔ 

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: روشنی اور حیات Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top