Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    پیر، 18 ستمبر، 2017

    سیاروں کی آب و ہوا کا اثر

    سرخ بونے کا جہاں بھی حیات پر پابندی عائد کر سکتا ہے اگر ثقلی طور پر قید سیارے خشکی یا سمندر کے علاقوں میں مستقل طوفانوں کا سامنا کریں۔ زمین کے استوائی علاقوں میں سورج سے نم ہوا کے زبردست طور پر گرم ہونے سے روزانہ طوفان اٹھتے ہیں۔ ایصال حرارت کثیف ابر مطیر طوفانی بادلوں کو پیدا کرتی ہے جو شام کی بارش لاتے ہیں۔ یہ بات قابل قیاس ہے کہ زیادہ حرارتی علاقے (ایس ایس پی) کے اوپر ایک مستقل بادلوں سے ڈھکا، نم علاقہ روشنی کی دستیابی کو محدود کر دے گا۔ اگرچہ اس علاقہ کے لئے امید کی جا سکتی ہے کہ ایک مزید معقول سیارے پر مناسب آبی کرہ کے ساتھ بغیر بادل کے جہاں میں سب سے زیادہ حرارت اور روشنی ہو گی، بادل اچھی خاصی روشنی کو متحرک ضیائی تالیف کو وقوع پذیر ہونے سے، کم از کم وقتاً فوقتاً روک دیں گے۔ 

    بلاشبہ یہ ایک انتہائی منظرنامہ ہے۔ زمین پر بادل جوار بھاٹے، ایصال کے بہاؤ، ہوا کے چلنے اور زیادہ تر طوفانوں کے نظام کے محدود دورانیے کی وجہ سے آتے اور جاتے ہیں۔ ثقلی طور پر قید جہاں میں یہی شرائط لاگو ہوتی لگتی ہیں، فرض کیجئے کہ کسی قسم کا آہستہ حرکت کرنے والا اور خود کفیل طوفان کا نظام نہیں بنتا۔ اس کے لئے بھی مزید کمپیوٹر ماڈلنگ اور مستقبل کے مشاہدات درکار ہوں گے، اور اس کے باوجود بھی ماڈلنگ کے کام سے لگائے گئے بہترین اندازے سیارے کی نازک مقامیات سے اثر انداز ہوں گے۔ 

    زندگی کے درجہ حرارت کی حدود


    ہمارے سیارے پر حیات انتہائی مطابقت پذیر ہے۔ برف میں -5 سینٹی گریڈ یا اس سے بھی کم کے درجہ حرارت میں جاندار نمو پاتے پائے گئے ہیں۔ دوسری انتہا کی طرف، جراثیم کی کچھ انواع کرۂ فضائی کے دباؤ پر پانی کے نقطہ ابال، 100 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت پر بھی زندہ پائی گئی ہیں۔ جہاں تک ہم جانتے ہیں محدود کرنے والا عوامل مائع پانی کی ضرورت ہے۔ یہ بات کچھ زیادہ حیرت کی نہیں ہے کہ حیات اس پیچیدہ اور منفرد خصائص رکھنے والے سالمے پر انحصار کرتا ہے۔ 

    پانی ایک محلل ہے۔ لہٰذا، جہاں پانی مائع کی صورت میں برقرار رہتا ہے، تو غالباً ہم ایک یا دوسری طرح کے جانداروں کو پاتے ہیں۔ متوقع پانی کے نقطہ انجماد (0 سینٹی گریڈ) کے درجہ حرارت سے نیچے، مائعیت اس وقت تک ممکن ہے جب تک دوسرے کیمیائی مادّے موجود ہوں اور کمیت میں حل ہوئے ہوں۔ یہ نقطہ پگھلاؤ کو بھی کم کر دیتے ہیں لہٰذا یا تو پانی کلی طور پر مائع کی صورت میں رہتا ہے یا تنگ حصّوں میں یا مائع کے راستوں میں جزوی پگھلاؤ کے حل شدہ جز منجمد خالص پانی کے غلاف میں بنے ہوتے ہیں۔ ان ماحولیات میں زندہ جرثومے اور کائی چٹانوں، چٹانوں کے اندر یا برف میں ایسی جگہ جیسا کہ انٹارکٹیکا یا انڈیز میں بالائی علاقے ہیں، پر نشو و نما پاتی ہے۔ مزید پیچیدہ جاندار اور پودوں کو مزید پابندیوں والے خطے کی ضرورت ہوتی ہے۔ بھاری جانداروں کو بڑی تعداد کے باہم مربوط خلیات کے ساتھ اس درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے جو کیمیائی تعاملات کو زیادہ اہم شرح پر قائم رکھنے کی اجازت دے جو ان کی نمو پذیری کے لئے درکار ہوتی ہے۔ کوئی بھی ممالیا پھل پھول نہیں سکے گا اگر اس کا مرکزی درجہ حرارت 33 سینٹی گریڈ سے نیچے ہو۔ زیادہ تر ممالئے یا تو ہجرت کر جائیں گے یا خوابیدگی میں چلے جائیں گے۔ خوابیدگی میں جاتے ہوئے وہ اپنے تھرموسٹیٹ کو بند کر دیں گے اور ایک طویل عرصے کی نیند کی حالت میں چلے جائیں گے۔ وہ زندہ تو رہیں گے تاہم وہ اس حالت میں تولید نہیں کر سکیں گے۔ ظاہر ہے ایک جاندار سونے کے دوران تولید نہیں کر سکتا اس طرح کے جاندار بچ تو سکتے ہیں، لیکن پھل پھول نہیں سکتے۔ 

    اس کے انتہائی مخالف زیادہ تر جاندار اس وقت مصیبت میں آتے ہیں جب درجہ حرارت 40-45 سینٹی گریڈ سے بڑھ جائے۔ کچھ جانداروں میں مطابقت پذیری ہوتی ہے جو ان کی اس طرح کے درجہ حرارت کو دن کے کچھ حصّے میں برداشت کرنے کی اجازت دیتی ہے، اور اکثر اس کے لئے نا صرف پانی کے جسم کی مقدار کی مؤثر انتظام بلکہ تپش برقراری - درجہ حرارت کے انتظام کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ زیادہ تر پیچیدہ جاندار اپنے برتاؤ کو بلند درجہ حرارت کے سامنا کرنے کی حد تک تبدیل کر لیتے ہیں، اکثر زیر زمین بل میں اس وقت تک گھس جاتے ہیں تاوقتیکہ شام ٹھنڈے حالات کو نہ لے آئے۔ تاہم ایک ثقلی مقید سیارے پر کوئی شام نہ ہو گی۔ ٹھنڈے عرض البلد کی طرف ہجرت یا چٹانوں یا دوسری ساختوں کے پیچھے چھپنے سے حفاظت تو مل سکتی ہے، تاہم اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ایسا مسلسل بنیادوں پر ہو سکے تاوقتیکہ کہ شکار یا شکاری دونوں ایسے ہی برتاؤ کریں۔ سیارے کی گرم ترین سطح سے سادہ طور پر بچنا ایک منطقی حکمت عملی لگتی ہے۔ زمین پر، پیچیدہ پودے -5 سے 45 سینٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں رہتے ہیں۔ اس حد کے اوپری سرحد پر ضیائی تالیف میں خامروں کے افعال اور کاربن ڈائی آکسائڈ کو پکڑنے والے حصوں میں ہونے والے خلل سے رک جائے گا۔ گھاس ایک طرح سے اپنے وسیع پتوں والے رشتے داروں سے زیادہ سخت ہوتی ہے اور ضیائی تالیف کو 60 سینٹی گریڈ تک کے درجہ حرارت پر جاری رکھتی ہے، اگرچہ نتیجہ اس کو واضح طور پر بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک بار پھر، اپنے جاندار رشتے داروں کی طرح وہ زندہ تو رہیں گے تاہم بمشکل نمو پائیں گے۔ 
    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: سیاروں کی آب و ہوا کا اثر Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top