مترجم:منصور محمد قیصرانی
رات کو جب مطلع صاف ہو اور چاند زیادہ روشن نہ ہو تو ریورنڈ رابرٹ ایوانز اپنی بھاری دوربین اٹھا کر گھر کے پچھواڑے میں بیٹھ کر ایک انوکھا کام کرتا ہے۔ اس کا کام آسمان کی گہرائیوں میں جھانک کر دم توڑتے ستارے تلاش کرنا ہے۔ اس کا گھر سڈنی کے مغرب میں 80 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ماضی کو دیکھنا نسبتاً آسان کام ہے۔ رات کے وقت آسمان پر نگاہ ڈالیں، تاحدِ نظر آپ کو ماضی ہی ماضی ملے گا۔ ہمیں دکھائی دینے والے ستاروں کا وہ ماضی ہمیں دکھائی دیتا ہے کہ جب روشنی ان سے نکلی ہوگی۔ مثلاً قطبی ستارہ عین ممکن ہے کہ کئی سو سال قبل تباہ ہو چکا ہو لیکن ہمیں ابھی پتہ نہ چلا ہو۔ ہم صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج سے 680 سال قبل یہ ستارہ اسی جگہ دمک رہا تھا۔ ستارے مسلسل مرتے رہتے ہیں۔ ایوانز کی وجہ شہرت ایسے مرتے ستاروں کی تلاش ہے۔
دن کے وقت ایوانز ایک چرچ میں جزوی نوکری کرتا اور انیسویں صدی کی مذہبی تحاریک پر تحقیق کرتا ہے۔ رات کے وقت اس کا کام بدل جاتا ہے اور وہ سپر نووا تلاش کرتا ہے۔
جب ہمارے سورج سے بہت بڑا ستارہ سکڑتا اور پھر تباہ ہوتا ہے تو سپر نووا پیدا ہوتا ہے جو ایک لمحے میں کئی سو ارب سورجوں کے برابر توانائی خارج کرتا ہے اور پوری کہکشاں کے دیگر ستاروں کی مجموعی روشنی اس کے آگے ماند پڑ جاتی ہے۔ ایوانز کہتا ہے کہ جیسے کئی کھرب ہائیڈروجن بم ایک ساتھ پھٹے ہوں۔ اس کے مطابق اگر سپر نووا ہم سے 500 نوری سال کے فاصلے کے اندر کہیں بھی پیدا ہو، ہمیں ختم کر دے گا۔ تاہم کائنات بہت وسیع ہے اور سپر نووا عموماً ہم سے بہت دور ہوتے ہیں اور ہمارے وجود کے لیے خطرہ نہیں بن سکتے۔ ان کی اکثریت تو اتنی دور ہوتی ہے کہ ان کی روشنی محض ایک ٹمٹماتے دھبے کی شکل میں پہنچتی ہے۔ لگ بھگ ایک ماہ جتنا عرصہ یہ ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ دیگر ستاروں کی نسبت یہ ‘عارضی ستارے’ ہمیں ان جگہوں پر دکھائی دیتے ہیں جو اس سے پہلے خالی تھی۔ ایوانز کا کام اس وسیع و عریض آسمان پر ایسے دھبے تلاش کرنا ہے۔
فرض کیجئے کہ عام کھانے کی میز پر کالا کپڑا بچھا کر اس پر مٹھی بھر نمک چھڑک دیا جائے۔ نمک کا ہر دانہ ایک کہکشاں کو ظاہر کرتا ہے۔ اب ایسے کل 1500 میزیں اکٹھی کر لیں جو دو میل لمبی قطار بنائیں گی۔ ان پر اسی طرح نمک چھڑک دیں۔ پھر کسی بھی میز پر، کسی بھی جگہ، نمک کا ایک اضافی دانہ ڈال دیں اور ایوانز کو کہیں کہ جاؤ اور جا کر اس ذرے کو تلاش کرو۔ ایک نظر ڈالتے ہی وہ اس دانے کو تلاش کر لے گا۔ یہ اضافہ دانہ سمجھئے کہ سپر نووا ہے۔
ایوانز کی یہ خاصیت اتنی منفرد ہے کہ ایک مصنف نے اپنی کتاب میں ان کے بارے پورا ایک قطعہ لکھا ہے۔ تاہم ایوانز نہیں جانتا کہ اس نے یہ صلاحیت کیسے حاصل کی۔ بقول اس کے، اسے لوگوں کے نام بھی یاد نہیں رہتے۔
اس کی دوربین ایک عام گھریلو گیزر جتنی بڑی ہے اور مشاہدے کے لیے وہ خود اسے اٹھا کر باہر لے جاتا ہے۔ اس کے گھر کے باہر اور درختوں کے اوپر جو تھوڑا سا آسمان دکھائی دیتا ہے، وہ اسی میں اپنی تلاش جاری رکھتا ہے۔ اسی جگہ جب چاند زیادہ نہ روشن ہو اور مطلع صاف ہو تو وہ سپر نووا تلاش کرتا ہے۔
سپر نووا کی اصطلاح 1930 کی دہائی میں فرٹز زویسکی نے متعارف کرائی تھی جو بلغاریہ میں پیدا ہوا لیکن پرورش سوئٹزرلینڈ میں پائی۔ 1920 کی دہائی میں جب وہ کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی یعنی کالٹیک پہنچا تو اپنی سخت گیر طبیعت اور منفرد صلاحیتوں سے خود کو منوایا۔ اگرچہ اتنا باصلاحیت یا غیر معمولی ذہین نہیں تھا اور اس کے کئی ساتھی اسے تنک مزاج اور احمق گردانتے تھے۔ تاہم اسے اپنی صحت کے بارے جنون تھا۔ اگر کوئی اس کی طاقت کے بارے شک ظاہر کرتا تو کھانے کے کمرے یا جہاں بھی ہوتا، وہیں زمین پر لیٹ کر ایک ہاتھ سے ڈنڈ پیلنا شروع کر دیتا تھا۔ اس کے علاوہ انتہائی تنک مزاج تھا۔ اس کے قریبی ساتھی اور اس کے ساتھ کام کرنے والے والٹر باڈ نے زویسکی کے ساتھ اکیلے کام کرنے سے یکسر انکار کر دیا۔ زویسکی نے کئی بار باڈ کو نازی کہا اور ایک بار تو یہاں تک کہہ دیا ‘اگر باڈ کالٹیک میں کہیں بھی دکھائی دیا تو میں اسے قتل کر دوں گا’۔
تاہم زویسکی بعض معاملات میں انتہائی ذہین بھی ثابت ہوا۔ 1930 کے اوائل میں جب آسمان پر دکھائی دینے والے اتفاقیہ اور عارضی ستارے سائنس دانوں کے لیے وجہ پریشانی بنے تو زویسکی نے اس پر توجہ دی۔ اس وقت انگلستان میں جیمز چیڈویک نے نیوٹران دریافت کیا تھا اور اس نئی دریافت کے سبب زویسکی نے سوچا کہ شاید ان نئے عارضی ستاروں کے پیچھے نیوٹران کسی نہ کسی طرح ملوث ہوں۔ اس کا خیال تھا کہ اگر ستارے بھی اسی طرح سکڑتے ہوں جیسے ایٹم، تو نتیجتاً انتہائی مختصر مگر انتہائی کثیف اجسام تشکیل پائیں گے۔ یعنی جیسے ایٹم سکڑ جائیں تو ان کے الیکٹران اور پروٹان مل کر نیوٹران بنائیں گے۔ سوچیں کہ اگر توپ کے کروڑوں گولوں کو سکیڑ کر ایک کنچے کے برابر جگہ میں رکھ دیا جائے تو کیا ہوگا۔ نیوٹران ستارے کی کثافت اتنی زیادہ ہے کہ ایک چمچ بھر مادے کی کثافت 5 سو ارب کلوگرام کے برابر ہوگی۔ زویسکی نے سوچا کہ اس حالت میں پھٹتے ستارے سے نکلنے والی توانائی انتہائی زیادہ ہوگی۔ پھٹنے کی اس کیفیت کو زویسکی نے سپر نووا کا نام دیا۔ تخلیق کے سب سے بڑے مظاہر سپر نووا ہی ہیں۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں