مترجم:منصور محمد قیصرانی
اس کے خیال میں ‘کچھ نہ ملنا دراصل ناکامی نہیں۔ اس سے ماہرینِ فلکیات کو کہکشاؤں کے پھیلاؤ کے بارے معلومات ملتی ہیں۔ یہ ان چند واقعات میں سے ایک ہے جہاں شواہد کی عدم موجودگی ہی شواہد کا کام دیتی ہے’۔
اس کے خیال میں ‘کچھ نہ ملنا دراصل ناکامی نہیں۔ اس سے ماہرینِ فلکیات کو کہکشاؤں کے پھیلاؤ کے بارے معلومات ملتی ہیں۔ یہ ان چند واقعات میں سے ایک ہے جہاں شواہد کی عدم موجودگی ہی شواہد کا کام دیتی ہے’۔
دوربین کے ساتھ ایک میز پر ایوانز کی کھینچی ہوئی سپر نووا کے متعلق کاغذات اور تصاویر رکھی ہوئی ہیں۔ عام طور پر ہم فنکاروں کی بنائی ہوئی رنگین اور خوبصورت تصاویر دیکھتے ہیں جو سپر نووا سے متعلق ہوتی ہیں۔ تاہم ایوانز کی تصاویر ان سے بہت مختلف اور بلیک اینڈ وائٹ دھندلی تصاویر ہیں۔ ایک تصویر میں ڈھیر سارے ستارے دکھائی دے رہے تھے جن کے درمیان ایک نسبتاً روشن دھبہ دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے تصویر کو بہت قریب سے دیکھنا پڑا تب کہیں جا کر سپر نووا دیکھائی دیا۔ ایوانز نے بتایا کہ یہ سپر نووا مجموعہ النجوم فورنیکس میں تھا جو بذاتِ خود این جی سی 1365 نامی کہکشاں کا حصہ ہے۔ این جی سی سے مراد نیو جنرل کیٹلاگ ہے۔ یہ پہلے کتابی شکل اور اب ڈیٹا بیس کی شکل میں ہے۔ 6 کروڑ سال تک اس ستارے کی روشنی خلا سے گزرتی ہوئی اگست 2001 میں زمین پر پہنچی اور ظاہر ہے کہ ایوانز ہی پہلا انسان تھا جس نے اسے دیکھا۔
ایوانز نے بتایا ‘یہ بات بہت سکون پہنچاتی ہے کہ کروڑوں سالوں تک روشنی خلا سے گزر کر زمین تک پہنچتی ہے اور عین اس خاص وقت پر کوئی انسان آسمان کے اس حصے کو دیکھتا ہے۔ اتنے بڑے واقعے کا مشاہدہ اچھا لگتا ہے’۔
سپر نووا محض عجوبہ ہی نہیں بلکہ ان سے اور بھی کئی فوائد منسلک ہیں۔ پہلے تو یہ کہ ان کی کئی اقسام ہوتی ہیں جن میں سے ایک تو ایوانز کی دریافت ہے۔ ان میں سے ایک قسم آئی اے سپر نووا کہلاتا ہے جو فلکیات کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ سپر نووا ایک مخصوص حجم کا ہوتا ہے اور ہر بار ایک ہی طریقے سے پھٹتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم اسے معیاری مانتے ہیں اور اس کی روشنی سے دوسرے ستاروں کی روشنی کا جائزہ لیتے ہیں اور اس سے ہمیں کائنات کے پھیلنے کی رفتار کا علم ہوتا ہے۔
1987 میں کیلیفورنیا کی لارنس برکلے لیبارٹری کے سال پرل مٹر کو اس سے زیادہ آئی اے سپر نووا درکار تھے جو عام مشاہدے سے مل رہے تھے۔ اس نے تلاش کے طریقے کو جدید بنیادوں پر استوار کیا۔ اس نے کمپیوٹر اور انتہائی عمدہ کیمروں کو ملا کر ایک نظام بنایا۔ اس نظام میں دوربینوں کی مدد سے کیمرے ہزاروں تصاویر لے کر کمپیوٹر کو بھیجتے اور کمپیوٹر ان تصاویر میں سپر نووا تلاش کرتے۔ اس تکنیک کی مدد سے پانچ سال میں 42 نئے سپر نووا تلاش ہوئے۔ اب تو عام انسان بھی اس تکنیک کی مدد سے سپر نووا تلاش کر رہے ہیں۔ ایوانز نے اپنی مایوسی کا اظہار کچھ یوں کیا ‘دوربین اور کیمرے کو آسمان پر کسی جگہ فوکس کر کے آپ دوسرے کام کرنے لگ جائیں۔ سارا لطف غارت ہو کر رہ گیا ہے’۔
میں نے ایوانز سے پوچھا کہ کیا وہ اس نئی تکنیک کو اپنانا چاہے گا تو اس نے انکار کیا اور ایک سپر نووا کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ‘مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی میں بعض اوقات ان سے آگے نکل جاتا ہوں’۔
اب عام سوال ذہن میں آتا ہے کہ اگر ہمارے نزدیک کوئی ستارہ پھٹے تو کیا ہوگا؟ ہمارے نزدیک ترین ستارہ الفا سنچوری یعنی قنطورس اول ہے جو 4.3 نوری سال دور ہے۔ اگر یہ ستارہ پھٹتا ہے تو چار سال سے زیادہ عرصے تک ہم اس کے پھٹنے کا مشاہدہ کرتے رہیں گے۔ دوسری جانب چار سال اور چار ماہ کا عرصہ ایسے ہوگا کہ ہم لمحہ بہ لمحہ قریب ہوتی ہوئی موت کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ جب اس کی تابکاری ہم تک پہنچے گی تو کوئی جاندار زندہ نہیں بچے گا۔ کیا یہ سب جانتے ہوئے بھی لوگ کام کریں گے؟ کیا کسان فصلیں اگائیں گے؟ کیا دکانوں پر سامان پہنچے گا؟
ایک ہفتے بعد جب میں اپنے گھر پہنچا تو اپنے قصبے کے کالج کے ماہرِ فلکیات جان تھورسٹنسن سے یہی سوال کیا۔ اس نے مسکراتے ہوئے تسلی دی ‘فکر کی کوئی بات نہیں۔ اس طرح کے واقعات میں تابکاری یا تباہی روشنی کی رفتار سے ہی حرکت کرتی ہے۔ جب ہمیں سپر نووا دکھائی دے گا، وہی ہمارا آخری لمحہ ہوگا۔ تاہم ایسا نہیں ہوگا’۔
اس نے بتایا کہ سپر نووا سے زمین پر اس طرح کی تباہی کے لیے اس سپر نووا کا دس نوری سال سے کم فاصلے پر ہونا لازمی ہے۔ اس سے پورے آسمان پر ہمیں انوارِ قطبی دکھائی دیں گے جو انتہائی خوبصورت ہوں گے۔ تاہم ایسی روشنیاں پیدا کرنے والے منبع کا اتنا قریب ہونا اچھی خبر نہیں کہ اس سے لازمی تباہی ہوگی کیونکہ اس سے زمین کا مقناطیسی کرہ تباہ ہو جائے گا جو ہمیں مختلف اقسام کی تابکاریوں سے بچاتا ہے۔ اگر مقناطیسی کرے کے بناء ہم دھوپ میں جائیں گے تو فوراً ہی ہماری جلد جل جائے گی۔
اس نے مزید بتایا کہ ہمیں اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ سپر نووا ایک خاص قسم کے ستارے سے بنتا ہے۔ ایسا ستارہ ہمارے سورج سے 10 سے 20 گنا زیادہ بڑا ہونا چاہئے اور اس حجم کا کوئی ستارہ اتنے قریب موجود نہیں۔ کائنات بہت وسیع ہے۔ اس طرح کا نزدیک ترین ستارہ Betelgeuse ہے جو زمین سے 50,000 نوری سال دور ہے۔ تاہم اس ستارے پر اسی قسم کی سرگرمی جاری ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں