Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 27 ستمبر، 2017

    بجلی کے بارے میں سب کچھ جانئے!

    آئیے دیکھتے ہیں کہ برق یا بجلی اصل میں ہوتی کیا ہے اور کس طرح سے سائنس دانوں کی صدیوں کی عرق ریزی نے اس کی زبردست قوت کو قابو کرکے انسانیت کی بہتری کے لئے استعمال کیا 

    آسمانی بجلی کی چمک سے لے کر برقی سرکٹ تک، برق یا بجلی کے کئی چہرے ہیں، تاہم یہ تمام کے تمام برقی چارج کی حرکت کے وجود سے منسلک ہیں۔ جب بات آتی ہے ہمارے گھروں میں موجود آلات کو چلانے کی، تو سب سے زیادہ اہمیت الیکٹران – ایک نہایت ننھا تاہم ایٹم میں پایا جانے والے انتہائی اہم ذرہ-کی ہے۔
    ایٹم منفی چارج رکھنے والے الیکٹران پر مشتمل ہوتا ہے جو مثبت چارج رکھنے والے پروٹون اور بغیر چارج والے نیوٹران پر مشتمل نیوکلیس یا مرکزے کے گرد چکر لگاتا ہے۔ مخالف چارج ایک دوسرے کو کھنچتے ہیں لہٰذا الیکٹران نیوکلیس کے مثبت چارج سے مقید رہتا ہے۔ عام طور پر ایٹم میں برابر کی تعداد میں الیکٹران اور نیوٹران ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے چارج کو زائل کرکے ایٹم کو معتدل رکھتے ہیں۔۔۔ تاہم الیکٹران چیزوں کو ہلا دینے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

    ایک دھات کے اندر، ایک تنگ جالی میں ایٹمز ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں اور اپنے ایک یا دو باہری الیکٹران کا دوسروں کے ساتھ اشتراک کرتے ہیں اور یہ الیکٹران ہر سمت میں گھومے ہوئے ہوتے ہیں۔ موزوں صورتحال میں ان آزاد الیکٹران کو ایک ساتھ ایک سمت میں سفر کرنے پر مائل کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح سے چارج میں ہونے والی حرکت ہی وہ ہے جس کو ہم برقی رو یا الیکٹرک کرنٹ کہتے ہیں۔
    برقی رو آئن کے ذریعہ بھی سفر کرسکتی ہے۔ آئن وہ چارج ذرّات ہوتے ہیں جو اس وقت بنتے ہیں جب کوئی ایٹم اپنے الیکٹران کو کھو دیتا ہے یا کسی دوسرے الیکٹران کو حاصل کرلیتا ہے۔مثال کے طور پر جب نمک (سوڈیم کلورائد) پانی میں حل ہوتا ہے، مثبت طور پر چارج ہوئے سوڈیم کے آئن اور منفی طور پر چارج ہوئے کلورین کے آئن ٹھوس نمک کے بندھن سے آزاد ہوجاتے ہیں اور آزاد طور پر مٹر گشت کرتے ہیں۔
    وہ مادے جس میں گھومتے ہوئے الیکٹران یا آئن کی زیادہ کثافت موجود ہوتی ہے ان کو موصل یا کنڈکٹر کہتے ہیں۔ دھاتی کنڈکٹر جیسا کہ تانبا برقی آلات میں بہت زیادہ پائے جاتے ہیں تاہم آئنز پر مبنی کنڈکٹر بیٹریوں کے اندر بلکہ زندہ اجسام میں بھی پائے جاتے ہیں۔ دیگر مادہ جات جیسے کہ ربڑ اور شیشہ اس بناوٹ کے ہوتے ہیں کہ ان کے الیکٹران اپنے ایٹمز سے بہت سختی کے ساتھ بندھے ہوتے ہیں یوں الیکٹران کا بہاؤ ان میں بہت مشکل ہوتا ہے ان کو حاجز یا غیر موصل - insulators -کہتے ہیں۔ تمام برقی رو ایک طرح سے نہیں پیدا ہوتی کیونکہ کئی عوامل الیکٹران کے بہاؤ پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب ایک بیٹری کو روشنی کے بلب سے جوڑا جاتا ہے، تو کرنٹ کے بہاؤ کا انحصار وولٹیج یا بیٹری سے لگنے والے پوٹینشل ڈیفرنس اور روشنی کے بلب کی مزاحمت پر ہوتا ہے۔
    پائپ کے ذریعہ پانی کو پھینکتے ہوئے ایک پمپ کا تصور کیجئے، بیٹری پمپ ہے اور وولٹیج وہ دباؤ کا فرق ہے جو پورے پائپ میں پھیلا ہوا ہے۔ وولٹیج بڑھانے سے کرنٹ بھی بڑھ جائے گا۔ بلب کی مزاحمت اوہم میں بیان کی جاسکتی ہے۔ کرنٹ کو گزرنے میں کتنی مشکل ہوگی اس کی پیمائش اوہم میں کی جاتی ہے۔ جزوی بند پائپ کے ذریعہ پانی کو زبردستی گزارنے کی صورت میں زیادہ مزاحمت ہوگی، اور اسی طرح سے آخر میں حاصل ہونے والی برقی رو کم ہوگی، یعنی کرنٹ (ایمپئر) وہ وولٹیج (وولٹ)ہوتا ہے جس کو مزاحمت (اوہم) سے تقسیم کیا جائے۔


    بجلی یا برق سے متعلق وہ پانچ اہم حقائق جو آپ کو معلوم ہونے چاہیں

    1۔بلند وولٹیج

    عام طور پر آپ کے جسم سے بننے والی ساکن بجلی 10,000 وولٹس سے زیادہ تک جمع ہو نے کا سبب بن سکتی ہے۔ خوش قسمتی سے کرنٹ کا نکلنا بہت ہی کمزور طریقے سے ہوتا ہے لہٰذا یہ ہمیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچاتی۔

    2۔ فرکی نورانیت – Triboluminescence

    میٹھی ٹافیوں کو چبانے سے مثبت اور منفی چارج شکر کے قلموں کے ٹوٹنے سے الگ ہوجاتے ہیں۔ جب یہ دوبارہ ملتے ہیں تو آس پاس کی ہوا برانگیختہ ہوتی ہے اور نیلے رنگ کی روشنی کی چمک پیدا ہوتی ہے۔

    3۔ مرتکز توانائی

    ایک نیوکلیائی گداختی ری ایکٹر ایک کلوگرام قدرتی یورینیم سے اتنی برقی توانائی پیدا کرسکتا ہے جتنی ایک پاور اسٹیشن 14 ٹن کوئلے سے پیدا کرتا ہے۔

    4۔ برقی یو ایف او

    بلند وولٹیج والی ٹرانسمیشن لائنز پر ساکن برقی چارج چمکتے ہوئے کرونا ڈسچارج کا سبب بنتا ہے، اسی کی وجہ سے پاور پلانٹ کے آس پاس لوگ اسے یو ایف او سمجھتے ہیں۔

    5۔ بہت مہنگی

    ہمارے فرج- فریزر عام طور پر گھریلو آلات میں سب سے زیادہ توانائی استعمال کرنے والے ہوتے ہیں۔ یہ لگ بھگ ایک سال میں 12,000 روپے مالیت کی بجلی استعمال کرلیتے ہیں۔

    قدرتی برق

    ایک صدی سے زیادہ کے عرصے پر محیط الیکٹرسٹی اسنانی تمدن کا بنیادی حصہ رہی ہے، تاہم قدرت میں یہ اس سے بہت پہلے سے موجود ہے۔
    آسمان پر چمکتی بجلی برقی رو کا سب سے واضح اظہار ہے، تاہم یہ بجلی کی چمک برق کا ایک اور چہرہ دکھاتی ہے یعنی ساکن برق۔ برقی رو حرکت کرتے ہوئے چارج سے متعلق ہوتی ہے جبکہ ساکن برق ایک ہی جگہ جمع ہونے والے چارج سے متعلق ہوتی ہے۔ بجلی کی چمک کی صورت میں مخالف چارج طوفانی بادل کی جڑ اور زمین میں جمع ہوتا ہے جس کی وجہ سے ایک نہایت طاقت ور پوٹینشل ڈیفرنس پیدا ہوتا ہے جو بالاخر بجلی کی چمک کی صورت میں ختم ہوتا ہے۔

    اکثر ہم ہلکے بجلی کے جھٹکے کی صورت میں ساکن بجلی کی تھوڑی کم شاندار شکل کا سامنا کرتے ہیں۔ جب مختلف مادے ایک دوسرے سے ملتے ہیں، تو وہ اکثر ایک دوسرے سے الیکٹران کو چوری کرتے ہیں، ان میں سے کچھ دوسروں کے مقابلے میں بہتر طور پر چارج کو پکڑ کر رکھتے ہیں۔ قالین پر چلنے یا پاجامہ اتارنے کے سادے سے عمل میں بھی آپ کا جسم منفی چارج کو جمع کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ جب آپ کسی موصل جسم کو چھوتے ہیں جیسا کہ دروازے کی کنڈی تو اضافی الیکٹران آپ کی انگلیوں سے فرار ہوجاتے ہیں، اور یوں آپ کو اس عمل کے دوران ایک برقی جھٹکا سا لگتا ہے۔ ہوا میں موجود نمی ساکن چارج کو منتشر کرنے میں مدد کرتی ہے، اس لئے آپ کو خشک موسم میں اس طرح کے جھٹکے عام طور پر لگتے ہیں۔

    ساکن بجلی ہوسکتا ہے کہ تھوڑی بہت پریشانی پیدا کرتی ہو، تاہم آپ کا جسم – تمام زندہ مخلوقات کی طرح- بجلی یا برق کے بغیر کام نہیں کرسکتا۔ اس وقت بھی برقی دھڑکنیں آپ میں سے گزر رہی ہیں، اور نسوں کے گنجان جال کے ذریعہ آپ کے دماغ سے پیغامات لے کر جا اور آرہی ہیں۔ جب متحرک ہوتی ہیں، تو وہ اس پوٹینشل کو الٹا دیتی ہیں اور سگنل کو پہنچاتی ہیں۔

    ان دھڑکنوں کے ذریعہ، آپ کے اعصاب آپ کے دماغ کو درد محسوس کرنے کے لئے ہوشیار کرتے ہیں، اس کے علاوہ یہ دیکھنے، سننے، چکھنے، چھونے اور سونگھنے کے احساس کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ اس طرح کے ان پٹ کو حاصل کرکے اس کا تجزیہ کرنے کے بعد آپ کا دماغ اسی مواصلات کے نظام کو استعمال کرتے ہوئے آپ کے پٹھوں کو سکڑنے، نہ صرف شعوری حرکت کو قابو کرنے بلکہ دل جیسے لاشعوری طور پر کام کرنے والے اعضاء کو بھی افعال سرانجام دینے کی بابت ہدایت دیتا ہے۔ ہارمون جیسی کیمیا کی سست رفتار مواصلات کے برعکس برقی دھڑک ان اہم پیغامات کو لگ بھگ فوری طور پر منتقل کرتی ہیں۔

    آپ کے جسم میں پیدا ہونے والا وولٹیج 0.1 وولٹز سے زیادہ نہیں ہوتا، تاہم کچھ جانور برق کو پیدا کرنے کے زیادہ پیچیدہ نظام کے ساتھ ارتقاء پذیر ہوئے ہیں۔ مثال کے طور پر برقی بام مچھلی یا الیکٹرک ایل طاقتور بجلی کے جھٹکے اپنے شکار کو دیتی ہے یا اپنی حفاظت کرنے کے لئے اپنے شکاری کو مارتی ہے۔ کئی مچھلیوں کی انواع میں سے ایک اس نوع نے یہ صلاحیت اس لئے حاصل کی کیونکہ اس کے پاس 6,000 الیکٹرو سائٹس ہوتے ہیں۔ الیکٹرو سائٹس ایک قرص نما خلیات ہوتے ہیں جو الیکٹرک پوٹینشل پیدا کرتے ہیں۔ان میں سے ہر خلیہ ایک ننھا اندرونی منفی چارج پیدا کرتا ہے۔ یہ چارج مثبت چارج کو باہر نکال کر پیدا کیا جاتا ہے۔
    دماغ کی دی ہوئی ہدایات حاصل کرکے، الیکٹرو سائٹس ایک راستہ کھولتا ہے جو مثبت آئن کو واپس آنے دیتا ہے تاہم وہ خلیہ کی ایک ہی طرف سے اندر آسکتا ہے، اس طرح سے پورے خلیہ میں وقتی طور پر الیکٹرک پوٹینشل پیدا ہوتا ہے۔ ان تمام ننھی بیٹریوں کو قطار میں رکھ کر اور ایک ساتھ فائر کرکے، برقی بام مچھلی ایک 650 وولٹز کا جھٹکا پیدا کرسکتی ہے یہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو یہ اس شکاری کو بھگانے کے لئے استعمال کرتی ہے جو اس کو کھانا چاہتا ہے۔

    دوسرے بحری جانور جیسا کہ شارک ہے وہ ایک دوسرا طریقہ استعمال کرتی ہے، وہ اپنے شکار کے کمزور برقی اشاروں کو پانی میں پکڑتی ہے۔ کیونکہ تمام جانداروں کے دماغ اور جسم بجلی استعمال کرتے ہیں، تو یہ ایک نہایت مؤثر طریقہ ہوتا ہے کہ اس کا استعمال کرکے گدلے پانی میں کسی بھی مخلوق کا سراغ لگایا جائے۔


    بجلی پیدا کرنے والے جانور


    برقی بام مچھلی - Electric eel

    شاید سب سے زیادہ مشہور برقی پالتو جانور، برقی بام مچھلی اصل میں کوئی بام مچھلی نہیں بلکہ تازہ پانی کی مچھلی ہے جو جنوبی امریکہ میں پائی جاتی ہے۔ مچھلی کو برقی جھٹکا بجلی بنانے والے خلیات سے حاصل ہوتا ہے جو اس کے جسم کا 80 فیصد تک کا حصہ ہوتے ہیں۔

    برقی کرکریلی بحری مچھلی - Electric ray

    برقی رے خاندان جانوروں کا وہ سب سے بڑا خاندان ہے جس کے پاس برقی جھٹکا پیدا کرنے کی طاقت ہے، یہ 69 مختلف انواع پر مشتمل ہے۔ رے 30 ایمپئر تک کا کرنٹ اور 50 تا 200 وولٹز تک پیدا کرسکتی ہے۔

    ہیمر ہیڈ شارک

    شارک برقی وصولی کی ماہر ہوتی ہیں، اپنے شکار کے پٹھوں کو سکڑنے سے پیدا ہونے والے کمزور ترین کرنٹ کا سراغ لگا سکتی ہے۔ ایک وولٹ کا ایک اربویں حصہ کو یہ اپنے چہرے پر لگے خصوصی مساموں سے پکڑتی ہیں۔ ہیمر ہیڈ کے عجیب پیالے میں دوسری شارک کے مقابلے میں زیادہ مسام ہوتے ہیں۔

    بط منقا پلیٹیپس - Duck-billed platypus

    موڑ خور خار پشت – echidna- کے ساتھ پلیٹیپس ان چند ممالیوں میں سے ایک ہے جو اپنی خوراک کو بجلی کے ذریعہ تلاش کرتا ہے۔ پانی کے اندر شکار کرتے ہوئے، پلیٹیپس اپنی آنکھیں، ناک اور کان بند کرلیتا ہے اور اپنی چونچ پر لگے 40,000 برقی وصول کنندہ پر اپنے شکار کو تلاش کرتے ہوئے انحصار کرتا ہے۔ اپنے سر کو ایک طرف سے دوسری طرف جھولا دیتے ہوئے یہ بہت ہی درستگی کے ساتھ شکار کو تلاش کرتا ہے۔


    بجلی کی پیداوار

    قدرت کچھ بہت ہی متاثر کن کارنامے سر انجام دے سکتی ہے تاہم انسان بھی بجلی کی طلب کو پورا کرنے کے لئے اپنے بنائے ہوئے نئے طریقوں کا خواب دیکھتے ہیں۔ آپ کے گھروں میں موجود بجلی کے سوکٹس کے پیچھے پائی جانے والی برق پاور ہاؤس سے آتی ہے۔ یہ پاور ہاؤس عام طور پر کیمیائی یا میکانیکی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کرتے ہیں۔

    زیادہ تر بڑے پیمانے پر بجلی کی پیداوار کا انحصار امالہ - induction -کہلانے والے شاندار اصول پر ہوتا ہے۔ امالہ؛ وہ خاصیت ہوتی ہے جس کے ذریعے ایک جسم، جو برقی یا مقناطیسی رجحان کا حامل ہو، وہ دوسرے جسم میں براہ راست رابطے کے بغیر برق حرکی؛ برق سکونی یا مقناطیسی قوت پیدا کرتا ہے۔ مشہور زمانہ برطانوی برق کے اصولوں کو دریافت کرنے والا موجد مائیکل فیراڈے وہ پہلا شخص تھا جس نے یہ معلوم کیا کہ متغیر مقناطیسی میدان ایک موصل میں پوٹینشل ڈیفرنس کو انڈیوس یا برپا کرسکتے ہیں۔ بالفاظ دیگرے برقی بہاؤ کو پیدا کرنے کے قابل وولٹیج کو پیدا کرنے کے لئے بس موصل کو ایک اتار چڑھاؤ والے مقناطیسی میدان کا سامنا کرانا ہوتا ہے۔

    زیادہ تر پاور پلانٹ کے اندر، اس پراسیس کے اندر پہلا مرحلہ پانی کو گرم کرنا ہوتا ہے۔ پانی کو عام طور پر کوئلے جیسے رکازی ایندھن کو جلا کر اس کی کیمیائی توانائی کو خارج کرکے گرم کیا جاتا ہے۔ جس طرح سے کیتلی میں ہوتا ہے کہ جب پانی گرم ہوتا ہے تو وہ بلند دباؤ کی بھاپ کو پیدا کرتا ہے، اس طرح پیدا ہونے والی بھاپ کو ایک ٹربائن کی طرف بھیجا جاتا ہے۔ ٹربائن کا استعمال موصل تار کے لچھے کے اندر موجود مقناطیس کو گھمایا جانے کے لئے کیا جاتا ہے۔
    اب بھی دنیا بھر میں جتنی بجلی پیدا کی جاتی ہے اس کا زیادہ تر حصہ رکازی ایندھن کو جلا کر ہی حاصل کیا جاتا ہے تاہم عالمگیری حدت سے جڑے خدشات اور کوئلے جیسے محدود وسائل کی رسد قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں دلچسپی کو بڑھا رہی ہے۔

    کچھ قابل تجدید توانائی کی تیکنیک وہی بنیادی خاکہ استعمال کررہی ہیں جو رکازی ایندھن کے پلانٹس استعمال کرتے ہیں۔ اس میں پانی کو گرم کرنے کے مختلف طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ نیوکلیائی پاور پلانٹس نیوکلیائی گداختی ردعمل سے حاصل کردہ توانائی کو استعمال میں لا رہے ہیں، جبکہ زمین کی اندرونی حرارت کا استعمال کرنے والے پلانٹ زمین کے قلب کی شدید حرارت کا استعمال کررہے ہیں۔ دوسرے قابل تجدید ذرائع مختصر راستہ چن کر انہی اصولوں پر گامزن ہیں۔

    بجائے حرارت اور بھاپ کو پیدا کرنے کے، وہ بہتے ہوئے پانی، چلتی ہوئی ہوا، سمندری لہروں یا سمندری مدوجذر کی میکانیکی قوت کو براہ راست قید کرکے ٹربائن کو چلاتے ہیں۔ اگرچہ ہر ایک میں توانائی کا منبع الگ ہے تاہم کام کرنے کا اصول امالہ کا ہی استعمال ہوتا ہے۔

    دوسری طرف شمسی توانائی ایک بالکل ہی الگ طریقہ استعمال کرتی ہے۔ شمسی یا فوٹو وولٹک سیل سورج کی روشنی کو بجلی میں تبدیل کرتا ہے۔ بجلی کی یہ تبدیلی ضیائی برقی اثر - photoelectric effect - کے اصول کا فائدہ اٹھا کر کی جاتی ہے۔ ضیائی برقی اثر مادے کی اس قابلیت کو کہتے ہیں جب اس میں سے الیکٹران اس وقت خارج ہوتا ہے جب روشنی اس پر ڈالی جاتی ہے۔ شمسی خانے کے اندر فوٹون – سورج کی روشنی میں موجود روشنی کی توانائی کا سب سے ننھا ذرہ – سلیکان کے ایٹم سے الیکٹران کو نکال دیتا ہے۔ ان کو بعد میں سلیکان کی نیم موصل خاصیت کا استعمال کرکے بطور برقی رو کے منظم کیا جاتا ہے۔ سلیکان کی نیم موصل خاصیت کی وجہ برقی عدم توازن پیدا ہوتا ہے اور یہ پورے شمسی سیل میں قائم رہتا ہے۔

    شمسی توانائی اوسط پاور اسٹیشن یا ونڈ ٹربائن –ہوائی چکی - کے مقابلے میں بہت زیادہ سفری یا پورٹیبل ہے۔ اسی وجہ سے یہ جیبی کیلکولیٹر سے لے کر خلائے بسیط میں جانے والے سیارچوں تک ہر چیز میں استعمال کرنے کے لئے مثالی ہے۔ بہرحال سب سے پسندیدہ انتخاب اب بھی بیٹری ہی ہے۔
    بیٹری کیمیائی توانائی کا ذخیرہ کرتی ہے اس کے بعد جب اس کے ٹرمنل سرکٹ سے منسلک کئے جاتے ہیں تو اس کو برق میں تبدیل کردیتی ہے۔ بیٹری کے اندر کیمیائی مادے آپس میں ردعمل کرتے ہیں اور بیٹری کے منفی ٹرمنل سے الیکٹران خارج کرتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ مثبت ٹرمنل میں دوسرے کیمیائی ردعمل شروع کرنے کے لئے جمع ہوں یہ الیکٹران سرکٹ کے اندر سے گزرتے ہیں۔ ان کیمیائی عمل کو چلانے والے بتدریج ختم ہوتے رہتے ہیں، تاہم ریچارج ایبل بیٹریاں ان کیمیائی عوامل کو الٹ دیتے ہیں اور یوں بیٹری کا چارج دوبارہ بھر جاتا ہے۔ خیر پورٹیبل پاور کی جدید ٹیکنالوجی میں سب سے زیادہ ہیجان انگیز ہائیڈروجنی ایندھنی خانے ہیں۔ بیٹریوں کی طرح یہ برق پیدا کرنے کے لئے کیمیائی رد عمل کا استعمال کرتے ہیں۔ آکسیجن اور ہائیڈروجن کو ملا کر حرارت اور پانی ضمنی پیداوار کے طور پر پیدا ہوتی ہے۔ ہائیڈروجنی ایندھنی سیل کئی بسوں اور فورک لفٹ میں پہلے ہی استعمال کئے جارہے ہیں، اور ہائیڈروجن سے چلنے والی پہلی تجارتی گاڑی اگلے چند برسوں تک فروخت کے لئے پیش کردی جائے گی۔ 

    ہائیڈروجن کو توانائی کے ذخیرہ کرنے کی قابلیت کی وجہ سے کئی ماہرین پیش گوئی کرتے ہیں کہ یہ مستقبل میں پورے کے پورے معاشرے کو توانائی مہیا کریں گی۔

    دریں اثناء، ہماری روزمرہ کی توانائی کی بڑی حد تک ضروریات اب بھی پاور اسٹیشن سے پوری ہوتی ہیں۔ بجلی کو پیدا کرنا تو صرف کہانی کا آغاز ہے – اس کے بعد اس کا وہ پیچیدہ سفر شروع ہوتا ہے جس میں یہ ہمارے گھروں تک سفر کرتی ہے۔۔۔


    بجلی یا برق کی ترسیل آپ کے گھر تک کیسے ہوتی ہے

    بجلی کی تقسیم گرڈ کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ گرڈ ایک ایسی ترسیلی تاریں ہوتی ہیں جو مقامی سب اسٹیشن کو پاور اسٹیشن سے منسلک کرتی ہیں، اور یہ مقامی سب اسٹیشن بالآخر صارف کے گھر تک تاروں کو منسلک کرتے ہیں۔ صرف یو ایس ہی میں ہی تین لاکھ کلومیٹر کی تاریں بجلی کی ترسیل کے لئے استعمال کی جاتی ہیں۔ یو کے میں صرف ایک نیٹ ورک ہے جو نیشنل گرڈ کہلاتا ہے، جبکہ یوایس میں کام کرنے والے ایسی تین نیٹ ورک ہیں۔

    گرڈ میں بجلی کا ذخیرہ نہیں کیا جا سکتا، لہٰذا پاور اسٹیشن سے نکلنے والی بجلی کو لوگوں کی بدلتی ضرورت کے مطابق ہی ہونا چاہئے۔ یعنی جب آپ اپنا ٹی وی چلاتے ہیں اس وقت سے لے کر جب آپ اپنا ٹی وی بند کرتے ہیں بجلی کی طلب و رسد مسلسل بدلتی رہتی ہے۔ نتیجتاً پیک آورز میں بجلی کو اکثر دور موجود پاور اسٹیشن سے درآمد کیا جاتا ہے تاکہ بجلی کی ترسیلی مؤثر رہے۔

    آپ کے گر پہنچنے سے پہلے، پاور اسٹیشن میں بننے والی بجلی کے وولٹیج کو بڑھایا جاتا ہے۔ جب ایک تار میں سے زیادہ برقی رو گزرتی ہے تو مزاحمت توانائی کو حرارت کی صورت میں ضائع کرتی ہے۔ جتنا زیادہ بڑی برقی رو ہوگی اسی قدر مزاحمت پیدا ہوگی اور اسی قدر زیاں زیادہ ہوگا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ وولٹیج کو بڑھا دیا جائے، یعنی کمزور برقی رو کے ذریعہ توانائی کی اتنی ہی مقدار کو منتقل کیا جائے۔

    سب اسٹیشن کے اندر ٹرانسفارمرز کے جتھے ہوتے ہیں جو بتدریج پاور اسٹیشن کے پیدا کئے وولٹیج میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر انڈکشن یا امالہ کا اصول اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ایک عام ٹرانسفارمر دہرے برقی مقناطیس پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک ڈونٹ یا نعل کی صورت کا لوہے کا قلب جس کے گرد دو مختلف تاروں کے لچھے لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ پہلا لچھا جنریٹر سے منسلک ہو کر برقی مقناطیس کو پیدا کرتا ہے۔ پاور اسٹیشن کا پیدا کردہ برقی رو متبادل یا آلٹرنیٹنگ (اے سی) ہوتی ہے، یعنی الیکٹران کا بہاؤ وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ بیٹری میں ایسا نہیں ہوتا اس میں الیکٹران کا متواتر بہاؤ ایک طرف ہوتا ہے یعنی یہ براہ راست رو یا ڈی سی ہوتی ہے)۔ اس طرح سے برقی مقناطیس مختلف مقناطیسی میدان کو پیدا کرتا ہے جس سے وولٹیج کو دوسرے لچھے میں جانے کی ترغیب ملتی ہے۔

    اس دوسرے وولٹیج کے حجم کا تعین تاروں کے لچھے پر ہوتا ہے۔ اگر آنے والے تار کے لچھا دس مرتبہ لپٹا ہوا ہوتا ہے اور جانے والے پانچ مرتبہ تو وولٹیج دگنا ہوگا۔ اس کے برخلاف ترتیب وولٹیج کو کم کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس کا وولٹیج جب ڈرامائی طور پر بڑھتا ہے تو یوں سمجھ لیں کہ بجلی تیز رفتار موٹر وے جیسے کسی برقی چیز پر سفر کر رہی ہوتی ہے یعنی ہائی وولٹیج ترسیلی تاروں پر۔

    ہائی وولٹیج لائنز طویل فاصلوں پر پھیلی ہوئی ہوتی ہیں اور ان کو بجلی کے بڑے بڑے کھمبوں کے اوپر کھینچا جاتا ہے۔ شہروں اور قصبوں میں داخل ہونے سے پہلے، سب اسٹیشن وولٹیج کو واپس محفوظ سطح پر لے آتے ہیں۔ اس کے بعد اضافی حفاظت کے تحت بجلی کو زیر زمین گھروں تک پہنچایا جاتا ہے۔

    مزید ٹرانسفارمر صارفین کو مختلف وولٹیج دیتے ہیں۔ زیادہ ہائی وولٹیج صنعتی جبکہ کم وولٹیج گھریلو استعمال کے لئے دیا جاتا ہے۔

    اگر آپ میں سے کسی نے دوسرے ملک کا سفر کیا ہے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہر ملک میں نہ صرف مختلف وولٹیج کا استعمال ہوتا ہے بلکہ ان کے یہاں استعمال ہونے والے پلگ بھی مختلف ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ تاریخی ہے، دنیا کے زیادہ تر ممالک (بشمول یوکے اور آسٹریلیا) 220, 230 یا 240 وولٹ استعمال کرتے ہیں جبکہ شمالی اور وسطی امریکی ممالک 120 وولٹ کا۔

    جنریٹر کیسے کام کرتا ہے

    1.مخفی توانائی

    جنریٹر دوسری قسم کی توانائی کو برقی رو میں تبدیل کرکے برقی توانائی پیدا کرتا ہے۔ ہائیڈرو پاور پلانٹ کی صورت میں، دریا پر ایک ڈیم باندھ دیا جاتا ہے، اور اونچائی پر پانی کا ذخیرہ بنایا جاتا ہے۔ اس پانی میں مخفی توانائی کا ذخیرہ ہوتا ہے جس کا اخراج اس وقت ہوتا ہے جب پانی ذخیرے سے نکلتا ہے۔

    2۔ گھومتے ہوئے ٹربائن

    پانی نلکے میں سے نکلتا ہے، اور ٹربائن کو حرکت دیتا ہے اور گرتے ہوئے پانی کی توانائی کو میکانیکی توانائی میں بدلتا کرتا ہے۔ ایک ٹربائن ایک منٹ میں 90 مرتبہ گھومتا ہے۔

    3۔ امالہ – Induction

    نتیجے میں ٹربائن کا گھماؤ جنریٹر کے اندر لگے ہوئے روٹر کو گھمانے کا باعث بنتا ہے۔ امالہ کے قوانین کا استعمال کرتے ہوئے، متغیر مقناطیسی میدان اسٹیٹر کے تاروں کے لچھے میں وولٹیج پیدا کرتا ہے، یوں برقی رو بہنے لگتی ہے اور بالاخر میکانیکی توانائی کو برقی توانائی میں تبدیل کردیتی ہے۔

    4۔ حتمی مرحلہ

    اس سے پہلے کہ یہ پاور اسٹیشن سے نکلے، جنریٹر سے پیدا ہوئی متبادل رو ایک بلند وولٹیج کے کرنٹ میں ایک اسٹیپ اپ ٹرانسفارمر کی مدد سے بدلتی ہے۔ اب یہ پاور لائنز میں دوڑنے کے لئے اور آپ کے گھر میں تقسیم ہونے کے لئے تیار ہے۔   

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: بجلی کے بارے میں سب کچھ جانئے! Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top