آج کل ہر جگہ ناسا کے خلائی جہاز انسائٹ کے سرخ سیارے پر اترنے کا چرچا ہے۔ انسان اب تک نظام شمسی میں کافی جگہوں پر اپنے خلائی جہاز روانہ کرچکا ہے۔ تاہم مریخ پر اترنے والے خلائی جہاز انٹرنیٹ، ٹیلی ویژن اور اخبار و جرائد سمیت دیگر میڈیا پر زیادہ موضوع گفتگو رہتے ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ آئیے جانتے ہیں۔
ناسا کا خلائی کھوجی انسائٹ 26نومبر، 2018 بروز پیر کے دن مریخ کی سرزمین پر ساتھ خیریت کے اتر گیا۔ یہ بات کہنا بہت آسان ہے لیکن خلائی جہاز کو مریخ کی سر زمین پر اتارنا جوئے شیر لانے جیسا ہے۔ مریخ پر بھیجے جانے والے کل خلائی جہازوں میں سے اب تک صرف 40 فی صد ہی ایسے ہیں جو کامیابی کے ساتھ سرخ سیارے پر اتر سکیں ہیں۔
مریخ کا کرۂ ہوائی زمین کی نسبت 100 گنا مہین ہے جس کی وجہ سے مریخ پر خلاء سے اترنا نہایت دشوار ہوتا ہے۔
آج تک صرف تین خلائی ایجنسیز نے سرخ سیارے کی سر زمین پر اترنے کی کوشش کی ہے اور کوئی بھی ایسی نہیں ہے جس کا ہر خلائی جہاز خیریت سے مریخ پر اتر سکنے میں کامیاب ہوا ہو۔
مریخ پر خلائی جہاز اتارنے کا کہنا بہت آسان ہے لیکن حقیقت میں عملی طور پر ایسا کرنا لوہے کے چنے چبانے جیسا ہے۔ پچھلے 50 برسوں میں خلائی جہاز کچھ آدھے درجن سے زائد جہانوں میں اتر چکے ہیں۔ ان دوسری دنیاؤں میں سیارہ زہرہ، زحل کا چاند ٹائٹن، ایک سیارچہ اور دوسری جگہیں شامل ہیں۔ البتہ ابھی تک کوئی بھی جگہ اس قدر پر خطر ثابت نہیں ہوئی جتنا کہ سرخ سیارہ – مریخ۔ انسائٹ سے پہلے مریخ پر اترنے والی صرف 40 فیصد خلائی مہمات میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ مریخ کو اگر دیکھیں تو یہ ایک بے ضرر سا سیارہ دکھائی دیتا ہے۔ اس میں سیارہ زہرہ کی طرح کے زہریلے بادل نہیں ہیں۔ سیارچوں کے برعکس مریخ پر کافی ہموار جگہ ہے اور یہاں پر کئی جگہیں ایسی ہیں جو خلائی جہاز کے اتارنے کے لئے مستحکم ہیں۔ لیکن یہیں ایک لوچہ ہے۔ مریخ کو دیکھ کر آپ جو سمجھ رہے ہیں وہ مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ مسئلہ وہ ہے جو ہمیں نظر نہیں آتا۔ یعنی اس کا کرۂ فضائی۔
مریخ کا کرۂ فضائی زمین کے مقابلے میں سو گنا زیادہ مہین ہے۔ اپنے مہین کرۂ ہوائی کی وجہ سے مریخ پیراشوٹ کے استعمال کو زیادہ کار گر نہیں ہونے دیتا۔ یہاں پیراشوٹ کی کارکردگی زمین کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ کم ہوتی ہے۔ فرض کیجئے کہ آپ مریخ پر اسکائی ڈائیو کرنے کے قابل ہوں اور آپ اسی حجم کا پیراشوٹ استعمال کریں جو آپ سیارہ زمین پر کرتے ہیں تو کیا ہوگا۔ زمین پر اسکائی ڈائیورز زمین کی طرف 20 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے گرتے ہیں۔ مریخ پر نیچے سطح پر گرنے کی رفتار 200 میل فی گھنٹہ ہوگی۔ ظاہر ہے یہ رفتار بہت زیادہ ہے۔ اس رفتار کو کم کرنے کے لئے آپ کو اپنے پیراشوٹ کا حجم بڑھاتا پڑے گا۔ اپنے خلائی جہاز مریخ پر خیریت کے ساتھ اتارنے کے لئے ناسا بھی کچھ اسی طرح کا کرتا ہے۔ مثلاً ناسا کی کیوریوسٹی خلائی گاڑی نے 2002 میں اپنے اترنے کے وقت سب سے بڑا سپر سونک پیراشوٹ استعمال کیا تھا۔ البتہ اس بڑے پیراشوٹ کے استعمال کے باوجود کیوریوسٹی کی رفتار بہت زیادہ کم نہیں ہوئی تھی۔ اس کی وجہ سمجھنے کے لئے ہمیں دوبارہ اپنی اسکائی ڈائیو والی مثال کو دیکھنا پڑے گا۔ اگر آپ مریخ پر اترنے کے لئے زمین والی 20 میل فی گھنٹہ والی رفتار چاہتے ہیں تو آپ کو 10 گنا چوڑا پیراشوٹ درکار ہوگا۔ یعنی ایک ایسا پیراشوٹ جس کا قطر 110 فٹ پر محیط ہو۔ اس قطر کا پیراشوٹ اتنا چوڑا ہوگا جو تقریباً ڈھائی اسکول بسوں کو ڈھانک سکتا ہے۔ یہاں ایک اور مسئلہ بھی ہے۔ ناسا کے کیوریوسٹی خلائی گاڑی کا وزن ایک اوسط انسان کے مقابلے میں 13 گنا زیادہ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسی رفتار پر آنے کے لئے اس کو اس سے بھی بڑے پیراشوٹ کی ضرورت پڑے گی۔ یعنی ایک ایسے پیراشوٹ کی ضرورت ہوگی جس کا قطر 400 فٹ پر محیط ہو۔ حقیقت میں کیوریوسٹی کا پیراشوٹ تو حجم میں اس کے آس پاس بھی نہیں تھا۔ اس کا قطر صرف 70 فٹ پر محیط تھا۔
ایسا کیوں تھا؟ اس کی وجہ یہ تھی کہ جتنا بڑا پیراشوٹ ہوتا ہے اس کے پھٹنے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ابھی تک سب سے بڑا بنایا جانے والا پیراشوٹ صرف 150 فٹ چوڑا ہی ہے۔ لہٰذا عملی طور پر بہت بڑا پیراشوٹ بنانا ایک طرح سے ناممکن ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریخ پر اترنا جان جوکھم کا کام ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ آخر کار خلائی ایجنسیز کیا کرتی ہیں۔
بہت احتیاط کے ساتھ سب سے پہلے خلائی جہاز اپنا دیوہیکل پیراشوٹ کھولتا ہے تاکہ جس قدر ممکن ہوسکے رفتار کو کم کیا جائے – عام طور پر 200 میل فی گھنٹہ تک کی رفتار ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد وہ راکٹ کو فائر کرتا ہے تاکہ باقی فاصلہ سکوں سے طے کیا جاسکے۔
اگرچہ سننے میں یہ سب آسان لگتا ہے تاہم اگر پیراشوٹ ٹھیک وقت پر نہ کھلے یا راکٹ درست اونچائی پر فائر نہ ہوسکے تو کھیل ختم ہو سکتا ہے۔ آج تک صرف تین خلائی ایجنسیوں نے مریخ پر اترنے کی کوشش کی ہے۔ یعنی ناسا، یورپی خلائی ایجنسی اور سابقہ سوویت یونین۔ ان میں سے کسی کی بھی کامیابی کی شرح سو فیصد نہیں۔
لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر مریخ پر اترنا اتنا مشکل ہے تو ہم وہاں مسلسل کیوں اپنی مہمات کو بھیج رہے ہیں؟ چاند کے ساتھ ساتھ، نظام شمسی میں مریخ کے اوپر اور اس کے مدار میں انسانی آلات سب سے زیادہ ہیں۔ آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مریخ ہم سے قریب ہے۔ یا شاید خلائی مخلوق کی تلاش کے لئے یہ سب سے بہترین جگہ ہے۔ یا شاید یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہر کامیاب مہم کے بعد ہم انسانیت کی سب سے عظیم خواہش کو پانے کے قریب تر ہوتے جارہے ہیں۔ وہ خواہش یا مقصد ہے کہ ہم وہ پہلی نوع ہوں جو اپنی دنیا سے آگے دوسری دنیاؤں کو آباد کرنے والی ہو۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں