Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    ہفتہ، 1 دسمبر، 2018

    اگر انسان مشتری پر اترنا چاہئے تو اسے کیسا محسوس ہوگا؟



    کسی بھی نئی دنیا کی کھوج کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ اس پر اترا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انسانوں نے اپنے خلائی جہازوں کو چاند، سیارہ زہرہ، مریخ، زحل کے چاند ٹائٹن اور دوسری جگہوں پر اتارا۔

    نظام شمسی میں کچھ ایسی جگہیں بھی موجود ہیں جن کو ہم شاید اپنی ارضی فہم کے مطابق کبھی نہ سمجھ سکیں۔ ان میں سے ایک سیارہ مشتری ہے۔

     مشتری زیادہ تر ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے مل کر بنا ہے۔ لہٰذا اس پر اتارنا ایسا ہی ہے جیسے کہ زمین پر موجود کسی بادل پر اترا جائے۔ اس کی کوئی سطح نہیں ہے جس پر آپ اتر سکیں۔ صرف ایک نا ختم ہونے والا پھیلا ہوا کرۂ ہوائی ہے۔

     اہم سوال یہ ہے کہ اگر  پورا کا پورا مشتری گیسوں سے مل کر بنا ہے تو کیا کوئی بھی چیز اس میں سے آر پار ہو سکتی ہے؟ یعنی کوئی بھی خلائی جہاز سیارے کے ایک طرف سے داخل ہو کر سیارے کے دوسری طرف سے نکل آئے؟ جی نہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔ چلیں ہم دیکھتے ہیں کہ اگر کوئی انسان مشتری پر اترنا چاہے تو اس کے ساتھ کیا ہوگا۔

    سب سے پہلے تو یہ بات جان لیجئے کہ مشتری میں آکسیجن نہیں ہے۔ لہٰذا آپ کو سانس لینے کے لئے اپنے ساتھ کافی مقدار میں آکسیجن لے کر جانی ہوگی۔ اگلا مسئلہ جھلسا دینے والا درجہ حرارت ہے۔ لہٰذا آپ کو ایک اپنے خلائی جہاز کو اندر سے ٹھنڈا رکھنے کے لئے ایئر کنڈیشن کی بھی ضرورت ہوگی۔ چلیں اب آپ مشتری کے سفر کے لئے تیار ہیں۔

    مشتری کس قدر بڑا سیارہ ہے اس بات کو سمجھنے کے لئے آپ جان لیجئے کہ مشتری کے قلب تک آپ 5.5 زمین جیسی سیارے رکھ سکتے ہیں۔ جب آپ کرۂ ہوائی کے بالائی حصے سے اس میں داخل ہونے کی کوشش کریں گے تو آپ مشتری کی زبردست ثقلی کشش کے باعث آپ کے سفر کی رفتار 110 ہزار میل فی گھنٹہ کی ہوگی۔
    لیکن زیادہ فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ جلد ہی اس کے کثیف کرۂ فضائی سے ٹکرا جائیں گے تاہم یاد رہے یہ ٹکر ایسی ہی ہوگی جیسا کہ آپ کسی دیوار سے ٹکرا گئے ہوں۔ اس زبردست ٹکر کے باوجود آپ کا سفر ختم نہیں ہوگا بلکہ جاری رہے گا۔

    تین منٹ بعد ہی آپ کرۂ فضائی میں 155 میل نیچے موجود بادلوں کے اوپری حصے تک پہنچ چکے ہوں گے۔ اب آپ اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں آپ مشتری کی محوری گردش اپنے پورے جوبن پر ہے۔ مشتری نظام شمسی میں سب سے زیادہ تیز رفتاری سے گردش کرتا ہے۔ اس کا ایک دن زمین کے تقریباً ساڑھے 9 گھنٹے کا ہوتا ہے۔ اس تیز رفتار گردش کی وجہ سے اس پر چلنے والی ہواؤں کی رفتار 300 میل فی گھنٹہ تک کی ہوسکتی ہے۔

    بادلوں سے 75 میل نیچے آپ اس جگہ پہنچ گئے ہیں جہاں اب تک انسان کا بنایا ہوا خلائی جہاز پہنچ سکا ہے۔ گلیلیو کھوجی نے جب 1995 میں جب مشتری کے کرۂ فضائی میں ڈبکی لگائی تھی تو وہ یہاں تک پہنچ پایا تھا۔ 58 منٹ تک یہ خلائی کھوجی ہمارے رابطے میں رہا اور اس کے بعد کچل دینے والے دباؤ کے باعث تباہ ہو گیا۔
    یہاں پر دباؤ زمین کی سطح کے مقابلے میں سو گنا زیادہ ہوتا ہے نیز آپ کسی بھی چیز کو دیکھنے کے قابل نہیں ہو سکیں گے۔ لہٰذا آپ کو اپنے خلائی جہاز پر موجود آلات پر بھروسہ کرنا ہوگا۔

    430 میل نیچے پہنچنے کے بعد، دباؤ زمین کے مقابلے میں 1,150 گنا زیادہ ہو جائے گا۔ اگر آپ کسی ایسے خلائی جہاز میں  موجود ہیں جو زمین پر سب سے گہرائی میں جانے والی ٹرسٹی آب دوز کی طرح بنا ہوا ہے تو ہو سکتا ہے کہ آپ ابھی تک بچے رہیں۔ اس سے مزید نیچے جانے کے لئے دباؤ اور درجہ حرارت کسی بھی خلائی جہاز کے لئے ناقابل برداشت ہوگا۔

    بہرحال ہم فرض کرتے ہیں کہ آپ اس سے بھی مزید آگے بڑھ سکنے کے قابل ہیں تو آپ مشتری کے کچھ عظیم رازوں سے پردہ فاش کر سکتے ہیں۔ تاہم افسوس کہ ان رازوں کو آپ کو اپنے سینے میں ہی دفن کرنا ہوگا کیونکہ آپ یہ راز کسی کو بھی نہ بتا پائیں گے۔ مشتری کا کثیف کرۂ فضائی ریڈیائی لہروں کو جذب کر لیتا ہے لہٰذا آپ کا رابطہ بیرونی دنیا سے منقطع ہو جائے گا اور آپ کسی بھی رابطہ کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔

    جب آپ 2,500 میل کی مسافت طے کر چکے ہوں گے تو درجہ حرارت 6,100 فارن ہائیٹ ہو گیا ہوگا۔ یہ اس قدر گرم ہے کہ کائنات میں سب سے اونچے درجہ حرارت پر پگھلنے والی دھات ٹنگسٹن بھی یہاں پگھل جائے گی۔ یہاں تک پہنچنے کے لئے آپ کو کم از کم 12 گھنٹے تک گرنا ہوگا۔ آپ ابھی تک سیارے کی گہرائی کے فاصلے کو آدھا بھی طے نہیں کرسکے۔

    13,000 میل نیچے آپ مشتری کی سب سے اندرونی پرت تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہاں پر دباؤ سطح زمین کے مقابلے میں 20 لاکھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔ درجہ حرارت سورج کی سطح پر موجود درجہ حرارت سے بھی زیادہ۔ یہ حالات اس قدر شدید ہیں کہ آپ کے ارد گرد موجود ہائیڈروجن کی کیمیا کو بدل دیتے ہیں۔ ہائیڈروجن کے سالمات کو آپس میں اس قدر قریب کر دیتے ہیں کہ ان  کو الیکٹران ٹوٹ کر آزاد ہو جاتے ہیں اور یوں ایک غیر معمولی عنصر بنتا ہے جو دھاتی ہائیڈروجن کہلاتا ہے۔ دھاتی ہائیڈروجن بہت زیادہ انعکاسی ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر آپ یہاں پر روشنی مار کر کچھ دیکھنے کی کوشش کریں گے تو وہ ناممکن ہوگا۔ نیز یہ اس قدر کثیف ہوتی ہے جیسا کہ پتھر۔ لہٰذا جب آپ مزید نیچے اپنے سفر کرنا جاری رکھیں گے تو دھاتی ہائیڈروجن کی اچھال نیچے کھینچتی ہوئی ثقل کے مخالف کام کرے گی۔ بالآخر یہ اچھال آپ کو اوپر کی طرف پھینک دے گی جبکہ ثقل آپ کو نیچے کھینچ لے گی اور آپ پنگ پونگ کی گیند کی طرح اس وقت تک اوپر نیچے جھولتے رہیں گے جب تک دونوں قوتیں توازن میں نہیں آجاتیں۔ اب آپ مشتری کے وسط میں معلق رہیں گے نا اوپر جا سکتے ہیں اور نہ ہی نیچے اور نہ ہی کوئی اور فرار کا راستہ ہے۔

    اس سفر کی روداد سن کر آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ مشتری پر اترنا کوئی اچھا خیال نہیں ہے۔ شاید ہم کبھی اس قابل نہیں ہوسکیں گے کہ ان شاندار بادلوں کے نیچے کے ماحول کو دیکھ سکیں۔ البتہ دور سے ہم اس پراسرار سیارے سے مبہوت ہونا اور اس پر تحقیق کرنا جاری رکھیں گے۔

    اہم بات: اس ویڈیو میں آدھے سفر کے لئے ہم نے لونر لینڈر کو دکھایا ہے۔ حقیقت میں لونر لینڈر ناسا کے خلائی جہاز اورائن کے مقابلے میں کافی نازک ہے۔ لہٰذا لونر لینڈر مستقبل میں کسی بھی ایسی دنیا جس میں کرۂ فضائی موجود ہو اترنے کے لئے استعمال نہیں ہوگا۔ مشتری میں بھی نہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کوئی بھی خلائی جہاز چاہے وہ کتنا بھی طاقت ور کیوں نا ہو مشتری میں زیادہ عرصہ تک محفوظ نہیں رہ سکتا لہٰذا ہمارے اس فرضی سفر کے لئے لونر لینڈر بہتر پسند ہے۔

    یہ ویڈیو آپ یہاں پر دیکھ سکتے ہیں۔

    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: اگر انسان مشتری پر اترنا چاہئے تو اسے کیسا محسوس ہوگا؟ Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top