ٹائٹن زحل کے گرد چکر لگاتے ہوئے 53 چاندوں میں سے ایک چاند ہے۔ صرف مشتری کے چاند گینی میڈ کو چھوڑ کر ٹائٹن ہمارے نظام شمسی میں موجود دوسرا بڑا چاند ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹائٹن نہ صرف ہمارے چاند سے بلکہ سیارہ عطارد سے بھی بڑا ہے۔ تاہم نظام شمسی میں چاندوں میں ممتاز حجم رکھنے کے باوجود ٹائٹن کی کشش کافی کمزور ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر کسی انسان کا وزن زمین پر 80 کلوگرام ہو تو ٹائٹن پر اس کا وزن 10 کلو گرام کے قریب ہوگا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ٹائٹن پر چھلانگ مارنا بہت آسان ہوگا۔ البتہ یہ بات دھیان میں رہے کہ ٹائٹن انسانوں کے رہنے کے لئے کوئی بڑی مہربان جگہ نہیں ہے۔ تاہم اگر آپ نے ٹائٹن کی جھیلوں میں تیرنے کا مصمم ارادہ کر ہی لیا ہے تو آپ کو ایک ایسا خلائی جہاز درکار ہوگا جو اس دور دراز کی عجیب دنیا تک پہنچ سکے۔ آپ کو وہاں پر زندہ رہنے کے لئے کافی ساری تیاری کرنی پڑے گی۔
ٹھنڈ سے نمٹنا
ٹائٹن کی سطح کا اوسط درجہ منفی 178 ڈگری سیلسیس ہے۔ یہ درجہ حرارت زمینی سخت جان جانداروں کے لئے بھی تھوڑا زیادہ ہے۔ خیر اگر آپ کو اس شاندار چٹانی چاند کی سیر کرنی ہے تو اس سردی اور ٹھنڈ سے تو نمٹنا ہی ہوگا۔ ٹائٹن نظام شمسی میں معلوم واحد چاند ہے جس کا اپنا کثیف کرہ ہوئی اور بادلوں کا نظام ہے۔ دوسرے کئی چاندوں میں بھی کرہ فضائی موجود ہے پر وہ کافی مہین ہیں۔ اور جب ہم کثیف کہتے ہیں تو اس کا مطلب واقعی کثیف ہے۔ ٹائٹن کا فضائی دباؤ زمین کے فضائی دباؤ سے 60 فیصد زیادہ ہے لہٰذا یہ بات ذہن نشین کر لیجئے کہ ٹائٹن پر چلنا کچھ اسی طرح کا ہوگا جیسے آپ کسی سوئمنگ پول کی تہ میں چل رہے ہوں۔ بس فرق یہ ہوگا کہ یہاں پر چلتے ہوئے آپ کی ناک میں پانی نہیں گھسے گا۔
زمین کی طرح ٹائٹن کا کرہ ہوائی بھی زیادہ تر نائٹروجن پر مشتمل ہے۔ البتہ ایسا لگتا ہے کہ یہاں پر "دھند" والے کیمیائی مادوں (جیسا کہ ایتھین) کی تعداد کافی زیادہ ہے۔ یہ دھند اس قدر تعداد میں جمع ہوجاتی ہے کہ یہ گیسولین جیسے مائع کی صورت میں برستی ہے۔
غیر آتش گیر مادہ
ہمیں معلوم ہے کہ آپ کیا سوچ رہے ہوں گے۔ چاند پر پٹرول کی طرح کی بارش ہورہی ہے لہٰذا یہ تو کسی بڑی مومی شمع کی طرح جل اٹھنے کے لئے انتظار میں ہوگا لہٰذا یہاں پر چھٹیاں گزارنے کا خیال کچھ زیادہ اچھا نہیں ہے۔ لیکن فکر مت کیجئے۔ جلنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا جب تک آپ اپنی آکسیجن کا استعمال احتیاط کے ساتھ کریں گے تب تک آپ محفوظ ہیں۔ البتہ اس بات کا خیال رکھیں کہ اگر اتفاق سے آگ لگ بھی جائے تو اس کو پانی سے مت بجھائیے گا۔ کیوں؟ ارے بھئی پانی کا فارمولا یاد نہیں H2O میں O کا مطلب آکسیجن ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹائٹن پر گیسولین جیسی بارش کافی ہوتی ہے۔
کیسینی کے ریڈار سے حاصل کردہ تصاویر بتاتی ہیں کہ ٹائٹن کے شمالی نصف کرہ میں جھیلوں کی سر زمین موجود ہے۔ یہ جھیلیں شمالی امریکہ کی عظیم جھیل کے حجم تک کی ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ آپ ٹائٹن کی جھیلوں کے چشموں سے کسی فرحت بخش مشروب کی توقع مت لگا بیٹھئے گا کیونکہ یاد ہے نا کہ یہاں پر زیادہ تک مائع میتھین کی صورت میں ہے۔ اور یوں لگتا ہے کہ میتھین یہاں پر کافی مصروف رہتی ہے۔ کیسینی نے چاند کی سطح پر دروں کا بھی سراغ لگایا ہے۔
کشتی میں سفر
تاہم ان دروں میں کشتی میں سفر کرنا کافی مشکل کام ہوگا کیونکہ یہ پانی کے بجائے جھیلیں میتھین کی ہیں۔
مزید براں یہ کہ کشتی چلانا بھی بہت مشکل کام ہوگا اس کی وجہ یہ ہے کہ مائع میتھین کی کثافت پانی سے لگ بھگ آدھی ہے۔ اس وجہ سے چپوؤں کو میتھین میں چلانا مشکل ہوگا۔ اسی طرح سے اگر آپ ٹائٹن کی جھیلوں میں تیرنا چاہیں گے تو آپ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ممکنہ طور پر آپ کو تیرنے کے لئے مخصوص آلات کی ضرورت پڑے گی تاکہ آپ اس مہین مائع میں تیر سکیں۔
یہ بھی یاد رکھیں کہ یہ مائع تھوڑا کم کثیف ہے اور اوپر سے ٹائٹن کی کشش بھی بہت کم ہے اس وجہ سے جس طرح سے ڈالفن تیرنے کے لئے پانی میں اپنے آپ کو دھکیلتی ہے اسی طرح سے آپ کو ٹائٹن پر کرنا پڑے گا۔
لیکن سب سے مزے دار بات یہ کہ ہے کیونکہ آپ وہاں پر ہلکے ہوں گے جبکہ آپ کی ارد گرد کی ہوا کثیف لہٰذا بڑے مصنوعی پروں کی مدد سے آپ کا اڑان بھرنا ممکن ہوسکتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں