ویکیپیڈیا کے مطابق اردو زبان میں سب سے پہلا سائنسی رسالہ "سائنس" حیدرآباد، دکن سے شائع ہونے والا ایک ہندوستانی مجلہ تھا، جسے جنوری سنہ 1928ء میں مولوی عبد الحق نے انجمن ترقی اردو، ہند کے تحت جاری کیا۔ یہ مجلہ دسمبر 1940ء تک سہ ماہی رہا، بعد ازاں جنوری 1941ء سے اسے ماہنامہ کر دیا گیا۔ مجلہ کا آخری شمارہ 1948ء میں شائع ہوا اور اس کے بعد یہ رسالہ بند ہو گیا۔
سہ ماہی سائنس کی ادارت کے لیے مولوی عبد الحق نے ممتاز ماہرین سائنس کو منتخب کیا تھا۔ مجلہ کے پہلے مدیر جامعہ عثمانیہ کے صدر شعبہ کیمیا ڈاکٹر مظفر الدین قریشی تھے۔ ایک سال بعد یعنی 1929ء میں جامعہ عثمانیہ کے شعبہ کیمیا کے معاون پروفیسر محمود احمد خان مدیر منتخب ہوئے۔ اس رسالے کا دفتر حیدرآباد دکن میں قائم کیا گیا تھا۔
مولوی عبدالحق جنوری 1928 کے پہلے شمارے میں "عرض واجب" کے عنوان سے لکھتے ہیں
هم اپنی نسبت کچهه بهی کہیں لیکن اس میں مطلق شبہ نہیں که ہم سائنس کے علم و عمل میں اس قدر پیچهے هیں که گویا ترقی کرنے والی قوموں کے سامنے طفل مکتب هیں۔ هماری گزشتہ تعلیم کا بہت بڑا حصه منطق، فلسفه، ادب و شاعری وغیره کے نذر ہوتا تھا اور اب بھی ان مضامین کو همارے نظام تعلیم میں بہت کچهه دخل هے۔ اس لئے تخيل نے عمل کی جگہ بھی گھیرلی هے - ایشیائی اور خاص کر هندی دماغوں کا علاج سائنس ہے۔ اس سے نہ صرف سائنس کی معلومات کا حاصل ہونا مقصود هے بلکه اس طريقه تحقیق کی تعلیم بھی مد نظر هے جو سائنس ہمیں سکھاتا ہے اور جو علم کے هر شاخ اور معاشرت کے ہر شعبے کے لئے ضروري هے۔ هندوستان کے کالجوں میں سائنس کی جو تعليم هوتی هے، اگرچہ وہ بھی ناقص ھے، تاهم جو کچهه هے غنيمت هے، لیکن ان درسگاہوں کے باهر اندهیرا گھپ هے. چشم بد دور اردو میں رسالوں کی تعداد کافی هے اور هر مہینے کوئی نہ کوئی نیا رساله جاری هوتا رهتا هے مگر وه زیاده تر ادب اور تاریخ وغيره سے بحث کرتے هیں۔ سائنس کے لئے کوئی رساله مخصوص نہیں ہے ۔ مشکل یه پیش کی جاتی هے اور صحیح بھی ھے، کہ سائنس کے مضامین کو اپنی زبان میں کیونکر ادا کریں ۔ اس مشکل کو عثمانیہ یونیورسٹی نے رفع کر دیا ہے، لیکن اس کا دائره بھی کالج کے احاطے تک محدود ہے۔ هم چاهتے هیں که اس فیض کو عام کردیں -
اس خیال سے انجمن ترقی اردو نے اس کام کا بیڑا اٹھایا ہے اور اس کی مساعی کا نتیجہ آپ کے سامنے هے۔ هم اس رسالے کو ڈرتے ڈررتے اهل ملک کے سامنے پیش کرتے ہیں، اس لئے که هم ابھی نہیں کہہ سکتے که هم کہاں تک اپنے مقاصد میں کامیاب ھوے هیں . ایک مقصد تو یه هے که عام پڑھے لکھے لوگوں کو سائنس کے معلومات سے نیز ان خیالات اور ایجادات و اختراعات سے آگاہ کرتے رہیں جو دنیا میں سائنس کے متعلق روز بروز هوتی رهتی هیں۔ دوسرا مقصد یه هے که خود همارے لوگ اپنی تحقیقات کو ملک کے سامنے پیش کریں یا سائنس کے مختلف شعبوں پر محققان مضامین لکھیں. کوشش یہ کی گئی هے که مضامیں عام فہم ہوں۔ لیکن یه کام آسان نہیں۔ تچر به هوتے هوتے معلوم هوا که همیں اس کا کیا ڈھنگ رکھنا چاھئے ۔ جامعہ عثمانیہ نے جہاں اصطلاحات وغيره کی وضع میں آسانی پیدا کی هے وهاں یه مشکل بھی آ پڑی هے که هم ان الفاظ اور اصطلاحات کو استعمال کرتے کرتے اس قدر عادی هوگئے هیں که یہ اندازه نہیں کرسکتے که با هور والوں کے لئے یہ کہاں تک عام فہم هیں. "عام فہم" پر فاضل اڈیٹر نے بہت پر لطف بحث کی هے اور میں اس سے زيادہ کچھ نہیں کہہ سکتا -
اس رسالے کے بعض نقائص سے هم خود بھی آگاه هیں، لیکن جب یہ پڑھنے والوں کے هاتھوں میں پہنچنے کا تو پھر میں اس کے معائب اور محاسن سے پوری آگاهی هو جاائے گی اور اس وقت ہم اس کی اصلاح میں زیادہ کوشش کریں گے ۔ البته اتنا میں پہلے ہی سے عرض کئے دیتا ہوں کہ ایک دو مضمون اس میں ضرور ایسے هیں که وه اصطلاحات کی بھرمار سے کسی قدر مشکل ھوگئے ھیں اور اگر زیاده فکر اور محنت کی جاتی تو کچھه نه کچهه آسانی ضرور پیدا ہوسکتی تھی۔ یہ پہلا نقش هے، اس قسم کی فروگذاشتوں کا ہونا ناگزیر ہے۔ کچھ دنوں کے بعد جب لکھنے والے پڑھنے والوں کو اور پڑھنے والے لکھنے والوں کو سمجھنے لگیں گے تو یه شکایت خود بخود رفع ہوجاے گی -
لیکن اتنی بات سے ضرور ہمیں خوشی هوتی هے که رساله شایع ہونے سے پہلے هي هر طرف سے اس کے اجرا پر مسرت اور همدردی کا اظہار کیا گیا ہے، یہاں تک کہ یورپ کے بعض ماہرین فن اور اعلی درجے کے سائنس دانوں نے بھی جوش اور خلوص کے ساتھ اس کا خیر مقدم کیا هے اور اپنے مضمون مرحمت فرماے هیں -
انجمن نے محض اردو زبان کی ترقی اور اهل ملک کی بھلائی کی خاطر اس کٹھن کام کو اپنے ذمے لیا ہے ۔ اس کی کا میا بی کا دار و مدار جس قدر هم پر هے اسی قدر ملک والوں پر بھی هے -
قیمت دوسرے رسالوں کے مقابلے میں کسی قدر زائد معلوم ہوئی، لیکن اس میں سراسر مجبوری ھے۔ مضامین لکھوانے کی اجرت اور نقشوں اور بلاکوں کی قیمت اور دوسرے اخراجات جو صرف ایسے هی رسالے سے مخصوصن هوتے هیں اس قدر پڑجاتے هیں که خرچ کا نکلنا بھی دشوار معلوم هوتا هے۔ پانسو پورے بک جائیں تو صرت خرچ نکل سکتا ہے اور موجودہ حالت میں اس کی توقع نہیں هوسکتی۔ ممکن هے که چند سال کی کوشش کے بعد آمد و خرچ برابر هو -
آخر میں میں ڈاکٹر مظفرالدین صاحب قریشی ایم۔ اے پی۔ ایچ۔ ڈی، پروفیسر جامعة عثمانیہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے باوجود اپنی مصروفیتوں کے میری درخواست پر نہایت کشادہ دلی اور ایثار کے ساتهه اس رسالے کی ترتیب کا کام اپنے ذمے لیا ہے اور یہ اس کی کامیابی کی مبارک فال هے -"
سہ ماہی سائنس کا پہلا شمارہ یہاں سے پڑھا جاسکتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں