دیباچہ عمومی
سائنس اورعام فہم سائنس پر اردو میں بہت کم کتاہیں ہیں۔جس کی وجہ سے اردو داں حضرات کو سائنسی ترقیوں سے واقفیت حاصل کرنے کا بہت کم موقع ملتا ہے۔ اس سلسلے کی اشاعت کی غرض صرف یہی ہے کہ عام اردو جاننے والوں اور ان طلباء کو جو سائنس پڑہتے ہوں، سائنس کی بڑہتی ہوئی ترقیوں سے واقف کرایا جائے تا کہ وہ اپنے ماحول کو اچھی طرح سمجھ کر لطف اندوز ہو سکیں۔
اس میں شک نہیں کہ سائنس نے اس دور میں خاصی ترقی کر لی ہے اور اس کا معیار اتنا بلند ہوگیا ہے کہ اس کے اصولوں کو اور عمل کو سمجھنا آسان بات نہیں لیکن ہم اتنا تو ضرور کر سکتے ہیں کہ، ان اساسی باتوں کو معلوم کرلیں جوان تحقیقات اور ایجادات کی بنیاد ہیں اور پھر ساتھ ہی ان کے استعمال سے بھی واقف ہوجائیں اور یہ دیکھیں کہ وہ ہماری روزمرہ زندگی سے کس طرح وابستہ ہیں۔ عہد حاضر میں ہوائی جہازوں آبدوز کشتیوں ریڈیو ، دورنمائی ریڈیم لاشعاعوں اور دیگر بے شمار ایجادات و اختراعات سے واقفیت نہ رکھنا اپنے آپ کو ان کے دائروں سے محروم کرلینا ہے۔
اس مقصد کو پیش نظر رکھکر ا دارہ ادبيات اردو نے ایسی چھوٹی موٹی کتابوں کی اشاعت کا بیڑا اٹھایاہے جن کو ہر اردو داں آسانی سے پڑھ اور سمجھ سکے۔ ہر کتاب ایک خاص سائنسی موضوع کو عام فہم زبان میں پیش کرتی ہے اور اس میں ٹھوس سائنسی مسائل کو قطعا نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ جگہ جگہ مناسب اور ضروری تصویریں بھی دی گئی ہیں تاکہ مطلب اچھی طرح واضح ہوجائے۔
اس سلسلے کی ترتیب واشاعت اصل میں مولوی فیض محمد صاحب کی تحریک کا نتیجہ ہے جو کئی سال سے اردو میں سائنس کی معلومات کو عام کرنے کی بڑی مستحسن کوشش کر رہے ہیں۔ اداره ادبیات اردو نے شعبہ سائنس کا آغاز انہی کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے بعد کیا ہے۔ اور بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس شعبہ کو ڈاکٹر قاضی معین الدین صاحب ایم ایس سی پی ایچ - ڈی (لنڈن) جیسا معتمد مل گیا جو اس شبے کے کام کو نہایت خوش سلیقگی سے آگے بڑہا رہے ہیں۔ توقع ہے کہ ان اصحاب کی دلچسپیوں کی وجہ سے اداره ادبیات اردو سائنس کی عام فہم معلومات کو سلیس و سادہ اردو میں منتقل کرنے میں کامیاب ر ہے گا۔
سید محی الدین قادری زور
معتمد
تمہید
جنگ عظیم میں آب دو کشتیوں کا نام جرمنوں سے اس درجہ وابسته ہوگیا کہ عام طور ان کو جرمنوں ہی کے تخلیقی دماغ کی پیداوار سمجھا جانے لگا۔ حالانکہ یہ ایک بالکل امریکی ایجادہے۔ اس خصوص میں ممالک متحده انگلستان فرانس اور بعض دیگر ممالک نے نمایاں کام انجام دیا اور جرمنوں نے ان کی ایجادات اور ان کے خزینہ معلومات سے فائدہ اٹھا کر مختلف نمونوں کی آب دوزکشیاں بنائی ہیں۔
جدید ترین آب دوزکشیاں گو اپنی ساخت اور استعداد کے اعتبارسے بہت ہی اعلی رتبہ کی سہی لیکن وہ بالعموم امریکی موجدین جان پی ہالینڈ اور سائیمن لیک کے تیار کردہ نمونہ پر ہی تیار کی جاتی ہیں اور یہی دونوں اس کے موجد کہلائے جاتے ہیں۔ مگر یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ اب دوز بنانے کا خیال پرواز کے تخیل کی طرح بہت ہی قدیم ہے جس طرح انسان پرندوں کو ہوا میں پرواز کرتا دیکھ کر رشک کرتا تھا، بالکل اسی طرح پانی کے اندر مچھلیوں کا بے تکلفی کے ساته غوطہ لگانا ، اس میں رشک کا احساس پیدا کئے بغیر نہ رہ سکا ۔ جس طرح ہواکی مملکت پر فتح پانا اس کی ایک آرزو تھی اسی طح سمندر کی سطح اور اس کی گہرائیوں میں راج کرنا ا س کی خواہش رہی۔
اس ربط سے کتاب آن لائن پڑھی اور داؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔
اس ربط سے کتاب آن لائن پڑھی اور داؤن لوڈ بھی کی جاسکتی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں