اس کتاب کے مولف برجیش بہادر ہیں اور ہندوستانی اکیڈمی الہ آباد یو پی نے اسے 1932 میں شائع کیا ۔ اس کتاب میں 310 سے زائد مختلف حیوانات کے بارے میں مختصر معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ حیوانات کو اندرونی اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔ ایک صلبی اور دوسرا غیر صلبی ۔ صلبی جانوروں کو مزید پانچ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ۔
پرانی اور عنقا کتابوں کو اردو پڑھنے والے طبقے سے روشناس کروانے کا مقصد یہ ہے کہ ہماری نئی نسل اس بات سے اچھی طرح آگاہ رہے کہ سائنس کی ترویج اردو زبان میں کوئی نئی بات نہیں ۔ اس طرح کی کتب اب کہیں بھی دستیاب نہیں۔ اگر اس طرح کی کتب کو پی ڈی ایف کی شکل میں لوگوں کے ساتھ بانٹا نہیں جائے گا تو اس قدر قیمتی معلومات کا ردی کی نذر ہو کر مٹ جانے کا خطرہ برقرار رہے گا۔
اس کے باوجود اگر کسی کو لگتا ہے کہ پی ڈی ایف کی صورت میں کتاب کے اشتراک سے کاپی رائٹ کا مسئلہ اٹھتا ہے تو وہ مجھ سے رابطہ کر سکتا ہے۔ اس صورت میں کتاب کو ویب سائٹ سے ہٹا لیا جائے گا۔
اگرچہ میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ پی ڈی ایف کی صورت میں کتاب پڑھنے والے بہت ہی کم ہیں۔ میں خود کوشش کرتا ہوں کہ کتاب کو کاغذی صورت میں ہی پڑھوں۔ کتنی ہی کتابیں جو مجھے پہلے پی ڈی ایف کی صورت میں حاصل ہوئیں اس وقت تک نہیں پڑھی گئیں جب تک وہ کاغذی صورت میں دستیاب نہ ہوئیں۔ بلکہ جو کتب کاغذی صورت میں دستیاب نہ ہو سکیں ان کا پرنٹ نکال کر ہی پڑھا۔ میرے خیال میں پی ڈی ایف کی صورت میں کاغذی کتاب کی مقبولیت بڑھتی ہے۔ خیر میں تصویری ٹیکسٹ کے بجائے یونیکوڈ اردو کا حامی ہوں کیونکہ اس میں آپ مطلوبہ معلومات آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔
طبقہ یكروزنہ - (Order of Monotremata)
دودھ پینے والوں میں اس طبقے کے جانور سب سے ادنی ہیں ۔ ان کے بچے انڈے سے پیدا ہوتے ہیں ۔
یک روزنہ جانور اپنی موجودہ شکل پر اس زمانے سے قائم ہیں جب دنیا میں پیٹ کے بل چلنے والے مہیب جانور کثرت سے تھے ۔ باوجود تغیرات زمانہ کے یکروزنہ حیوان لکیر کے فقیر بنے رہے ہیں ، نہ ساخت میں کوئی ترقی کی اور نہ اپنی وضع میں کوئی تبدیلی - اگرچہ دودھ پینے والوں کی بعض خصوصیتیں انھوں نے اختیار کرلی ہیں تاہم پیٹ کے بل چلنے والے اور پرندوں کے بھی کچہہ اوصاف ان میں موجود ہیں - واقعی ان کی جسمانی ساخت ایک معمہ ہے ۔
اس طبقے کو یكر ورنہ کے نام سے موسوم کئے جانے کی وجہ یہ ہے کہ دودھ پینے والے جانوروں میں صرف اس طبقے ہی میں ایک ممتاز صفت یہ ہے کہ ان کی دونوں سبیلوں کے لئے قدرت نے ایک سبیل رفع حاجات کے لئے رکھی ہے ۔
یہ جانور آسٹریلیا میں اور تاسمانیہ اور نیو گنی کے جزیروں میں ملتے ہیں - اس طبقے میں صرف دو نوعیں ہیں ، ایک تک بل (Duckbill) ، اور دوسری ایک ڈنا (Echidna) -
عالم حیوانی ڈک بل - (Duckbill platypus)
ڈک بل بطخ کی چونچ کو کہتے ہیں - اس جانور کو ڈک پل کے نام سے اس لئے موسوم کرتے ہیں کہ اس کا منہ بطخ کی چونچ سے بالکل مشابہ ہے ۔
ڈک بل ایک چھوٹا سا جانور ہے جسم کا طول ڈیڑھ فٹ اور دم چھ انچ کی ہوتی ہے ، مادہ کا قد بہ نسبت نر کے کچھ چھوٹا ہوتا ہے ، جسم کے اوپری حصے کا رنگ بھورا سیاہی مائل اور نیچے بھورا ہوتا ہے ، دم چوڑی اور چپٹی ، ٹانگیں چھوٹی چھوٹی لیکن مضبوط اور اگلے پنجوں میں سیدھے اور نکیلے ناخون ہوتے ہیں - اگلے پنجوں کی انگلیاں سب ایک ہی جھلی میں منڈہی ہوتی ہیں اور جھلی ناخون سے آگے جھالر کی طرح لگتی ہے ، اس کے اگلے پاؤں اور چپٹی دم تیرنے میں بڑی مدد دیتی ہیں ۔
پچھلے پاؤں کی انگلیوں پر جہلی منڈہی نہیں ہوتی اور ان پر خمدار بڑے بڑے ناخون ہوتے ہیں ۔ چونچ پر سیاہ ملائم کھال ہوتی ہے ۔ دانت کسی قسم کے نہیں ہوتے بلکہ ان کے مقام پر ہڈی کی پٹریاں جڑی ہوتی ہیں جن پر کہیں کہیں گھنڈیاں ہوتی ہیں جو دانتوں کا کام انجام دیتی ہیں ۔
نر کی پچھلی ایڑیوں پر ایک کھوکھلا خار ہوتا ہے ۔ یہ پیچھے کی طرف ایک نلی میں جڑا ہوتا ہے جس کا کہ ران تک تعلق ہوتا ہے - نلی کے آخر میں ایک گرہ ہوتی ہے جس میں ایک رقیق مادہ پیدا ہوتا ہے جس کو ڈک بل اپنی اس نلی اور خار کے اندرونی خلا کے ذریعہ، دور تک چھڑک سکتا ہے ۔ آسٹریلیا کے قدیم باشندے بتاتے ہیں کہ اگر انسان کے جسم پر یہ رقیق مادہ پڑ جائے تو ورم آ جاتا ہے ۔
ڈک بل کی سب سے بڑی خصوصیت یہی ہے کہ اس کی مادہ انڈے دیتی ہے اور بچہ، انڈے سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہاں ناظرین کو یہ خیال گذرے گا کہ اس کو شیر خوار جنس میں کیوں شامل کیا گیا ہے ۔ وجہ یہ ہے کہ ان کے بچوں کا ذریعہ پرورش شیر خواری ہے جو اس جنس کی خاص خصوصیت ہے ۔
اہل یورپ جب تک اس خصوصیت سے ناواقف تھے تو قدماء آسٹریلیا سے سنا کرتے تھے کہ ڈک بل کی مادہ انڈے دیتی ہے اور ساتھ ہی بچوں کو دودھ بھی پلاتی ہے ۔ علمائے فن اس بیان کو محض ضعف اعتقاد مانتے تھے لیکن آخر کار اس کی سچائی ثابت ہو گئی ۔
ڈک بل کی کئی ہڈیاں پرندوں کی ہڈیوں سے بہت مشابہ ہوتی ہیں اور جسمانی ساخت میں ڈک بل پیٹ کے بل چلنے والے جانوروں سے بھی بہت مشابہت رکھتا ہے ۔ بمقابلہ د دوسرے شیر خوار جانوروں کے ڈک بل کے خون میں بہت کم حرارت ہوتی ہے - غرض کہ پرند، پیٹ کے بل چلنے والے اور شیر خوار تینوں قسم کے حیوانات سے وہ بظاہر تعلق رکھتا ہے - فی الواقع اس کی جسمانی ساخت حیرت انگیز ہے ۔ ایک ماہر فن اس عجیب الخلقت حیوان کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں کہ وہ آسٹریلیا جہاں ہر بات خلاف قاعدہ نظر آتی ہے کہ باد شمالی گرم اور باد جنوبی سرد ہوتی ہے - ناشپاتی کا موٹا حصہ، شاخ کی جانب اور بیر کا تخم باہر ہوتا ہے وہیں یہ عجیب و غریب جانور بھی پیدا ہوتا ہے۔ جب یہ عجیب الخلقت حیوان یورپ میں لایا گیا تو لوگوں کو یہ خیال گذرا کہ کسی مسخرے نے کسی نامعلوم جانور کے منہ میں بڑی ہوشیاری کے ساتھی بطخ کی چونچ اگا دی ہے ‘‘ -
ڈک بل زیادہ تر پانی میں رہتا ہے اور کسی چشمے یا جھیل کے ڈھالو کنارے پر بل کھود لیا کرتا ہے ۔ بل کا دہانہ پانی کے اندر ہوتا ہے اور دھانے سے اوپر کی جانب سرنگ کھود کر آخر حصے میں وہ ایک بڑی کھوہ تیار کرتا ہے جس میں اس کی مادہ انڈے دیتی ہے - انڈوں کی تعداد چار تک ہوتی ہے ۔
ڈک بل کیڑے مکوڑے کھایا کرتا ہے ۔
ایکڈنا - (The Echidna)
ڈک بل کے ھم ساسلہ جانوروں میں روئے زمین پر صرف ایک ایکڈنا موجود ہے ۔ اس کا جسم فربہ اور ٹانگیں نہایت مختصر ہوتی ہیں - پنجوں میں مضبوط ناخن ہوتے ہیں چونچ ایک لمبی نلی کی طرح ہوتی ہے ‘ زبان لمبی اور پتلی اور باہر دور تک نکل سکتی ہے ۔
ایکڈنا بہی شیر خوار جانور ہے - انڈے سے نکل کر اس کے بچے کی پرورش بھی دودھ سے ہوتی ہے - ایکڈنا کے جسم پر ساہی کے مانند کانٹے ہوتے ہیں - نوع ایکڈنا میں تین اصناف (Species) ہیں جو آسٹریلیا اور اس کے قریب دوسرے جزیروں میں ملتے ہیں ۔
دیسی ساھی - (Echidna aculeata)
ایکڈنا نوع کی یہ صنف دیسی ساھی کے نام سے موسوم کی جاتی ہے کیونکہ اس کے جسم پر ساھی کے مانند کانٹے ہوتے ہیں جن کا رنگ پیلا لیکن نوکیں سیاہ ہوتی ہیں - جسم پر موٹے موٹے بال بھی ہوتے ہیں مگر وہ کانٹوں کی وجہ سے نظر نہیں آتے ۔
زمین کھودنے کی طاقت ایكڈنا میں بہت ہوتی ہے ۔ اس کے پنجے مشین کی طرح چلتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ دلدل میں بسرعت پیوست ہوتا جا رہا ہے - آنکھ جھپکنے کی دیر کہ وہ بل کھود کر زمین کے اندر داخل ہو جاتا ہے ۔ سخت سے سخت زمین کو بھی ریت کی طرح کھود ڈالتا ہے ۔ اس کو مقید رکھنے کے لئے پتھر یا لکڑی کا فرش ضروری ہے ورنہ رات ہی رات میں غائب ہو جاتا ہے ۔
ایکڈنا کی خوراک بھی کیڑے مکوڑے ہی ہیں . تمام کرم خور جانوروں کی زبان لمبی ہوتی ہے چنانچہ ایکڈنا کی زبان کی بھی یہی کیفیت ہے اور اس پر ایک قسم کا لعاب بھی ہے ۔ قدرت کی نیرنگی حکمت کا تماشا دیکھتے ، اس نے زبان باہر نکالی نہیں کہ سیکڑوں چیونٹیاں اس پر چپک کر منہ میں پہونچیں ۔ دشمن کے سامنے ایکڈنا ساہی کی طرح گیند کے مانند گول ہو کر خاروں کو کھڑا کر لیتا ہے ۔
اس کتاب کو یہاں سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ کیا جسکتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں