ارضیات کے بنیادی تصورات
قارئین غالباً اس سلسلہ کتب کی کچھ کتابوں سے واقف ہوں گے۔ فزکس کیمسٹری اور میکینکس برائے عامہ ، الجبراء ، جیومیٹری اور ریاضیات برائے عامہ اسی سلسلے کی کتابیں ہیں ۔ مختصر قصہ کہانیوں کی شکل میں یہ کتابیں نیچر ,nature میں ہونے والے مظاہر قدرت اور دلچسپ قدرتی عمل کے بارے میں ہمیں بتاتی ہیں ۔ یہ کتابیں ریاضیات ، فزکس کیمسٹری اور میکینکس کی گتھیوں کا جواب دیتی ہیں اور مبادیات سائنس کو آسان اور دلچسپ پیرائے میں بیان کرتی ہیں ۔ مشہور عالم اے ۔ ای ۔ فرسمین ۔A E. Fersman نے اپنی کتاب "علم معدنیات براۓ عامہ" (جس کے متعدد ایڈیشن آ چکے ہیں) میں یہ بات واضح کردی ہے کہ علم معدنیات جیسے بظا ہر خشک اور غیر دل چسپ مضمون جس میں معدنیات کی ہئیت اور ان کی خصوصیات کا مطالعہ کیا جاتا ہے ایک نہایت دلچسپ مضمون ہے ۔ فرسمین نے حجریات اور چٹانوں جیسے موضوعات کو دلچسپ انداز میں بیان کیا ہے اور روز مرہ کی زندگی اور ٹیکنالوجی میں معدنیات کے استعمال اور افادیت کو سمجھایا ہے ۔ مصنف اپنے پڑھنے والوں کو پہاڑوں ، کانوں یعنی معدنیات کے پرستانوں کی سیر کراتا ہے۔
جیولوجی یعنی علم ارضیات جس میں زمین کی پیدائش اس کی بناوٹ اور اس پر لاکھوں کروڑوں برس کی مدت میں ہونے والی تبدیلیاں یقیناً دلچسپیوں کی حامل ہیں ۔
علم ارضیات - ارضیاتی ادوار پر روشنی ڈالتا ہے اور روز مرہ ہونے والی ان تبدیلیوں کا ذکر کرتا ہے جن سے گزر کر ہماری زمین اپنی موجودہ شکل میں آئی ہے ۔ سورج کی گرمی ، ہوا ، بارش ، اوس ، پالا ، کہره ، برف یہاں تک کہ نباتات اور حیوانات سب ہی ارضیات عوامل ہیں۔ ہم ان کے عمل کا ارضیات میں ، مطالعہ کرتے ہیں۔ سطح ارض یعنی ارضی مناظر جن کو ہم سراہتے ہیں درحقیقت انہیں ارضیاتی عوامل اور زیر زمین پوشیدہ قوتوں کی کاریگری کا نتیجہ ہے۔ زیر زمین قوتیں کبھی کبھی شدید زلزلوں اور آتش فشاں جیسی ہیبتناک شکلوں میں نمودار ہوتی ہیں۔
علم ارضیات سے واقفیت نہ رکھنے والا انسان ایک اندھے آدمی کی طرح ہے جو مختلف قسم کی چٹانوں میں فرق نہیں کر سکتا۔ چٹانوں کے مختلعت رنگ اس کے لئے بے معنی ہیں ۔ وہ یہ بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ قدرتی نالیاں gullies وغیرہ کیسے وجود میں آتے ہیں ۔ ایسی قدرتی نالیوں اور نالوں میں چٹانوں کی مڑی ہوئی اور عمودی پرتوں کو دیکھ کر وہ حیران ہو جاتا ہے ۔ ایسا انسان آبشاروں، خوبصورت عمودی ڈھالوں ، کلف ,clift گہری عمودی گھاٹیوں وغیرہ کو سراہ سکتا ہے لیکن یہ مناظر اس کے اندر سرسری تاثر پیدا کر پاتے ہیں۔ وہ قدرت کی بنا ئی ہوئی ظاہری شکلوں کی تعریف تو کر سکتا ہے مگر وہ اس پورے مظاہر قدرت کی گہرائی کو نہیں پہنچ پاتا ۔ ارضیات ہمیں نیچر اور ارتقاء قدرت کو سمجھنے کا درس دیتی ہے۔
علاوہ ازیں علم ارضیات کچی دھاتوں، کوئلہ، تیل ، نمک اور دوسرے سود مند ذخائر کا پتہ لگانے میں مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔ علم ارضیات سے واقفیت کے بغیر ہم با قاعده معدنیات کا اندازہ نہیں لگا سکتے ۔ معدنیات کی جستجو میں ہم اس کے مختلف گوشوں میں پھر سکتے ہیں لیکن علم ارضیات کے بغیر نہ ہم مختلف دھاتوں کی خاصیت اور مقدار کا اندازہ کر سکتے ہیں اور نہ ہی ان کا استحصال کر سکتے ہیں۔ اس طرح علم ارضیات نہ صرف ہماری عام معلومات اور دائرۂ افق کو وسیع کرتا ہے ۔ بلکہ یہ انتہا تجرباتی قدرو قیمت کا حامل ہے۔
یہ سائنس صرف معدنیات کا اندازہ اور پتہ لگانے کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ یہ اپنے احاطے میں بہت ساری چیزوں کو سمیٹے ہوئے ہے۔ مثال کے طور پر عمارتوں، سڑکوں، ریلوں ، سرنگوں، باندھ ، پن بجلی گھروں وغیرہ کی تعمیر سے پہلے علاقہ مخصوص کی زمین، چٹانیں، ان کی ساخت وغیرہ سے واقفیت حاصل کرنا ضروری ہے ۔ ارضیاتی اعدادوشمار حاصل کئے بغیر کفایت شعاری اور کم وقت میں پائدار چیزیں تعمیر کرنا مشکل ہے۔
علم ارضیات میں آب زیر زمین کا بھی مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ اس پانی کو اپنی صنعتی اور روز مرہ کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے کیسے حاصل کیا جائے ؟ آب زده علاقوں سے پانی کا نکاس کیسے کیا جاۓ ؟ علاوہ ازیں معدنی چشموں کا مطالعہ بھی علم ارضیات میں کیا جا تا ہے ۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر ایک آدمی کو ارضیات سے متعلق جانکاری ہونی چاہیے اور اس کتاب کا اصل مقصد علم ارضیات سے واقفیت کرانا ہے۔ اس لئے علم ارضیات نہ تو مختلف الا قسام اشیاء کی دل چسپ کہانیوں کا نام ہے ، نہ ہی چند حیرت انگیز واقعات کا خلاصہ اور نہ ہی سائنس کے وسیع میدان سے حاصل کردہ چیزوں کا موازنہ ہے بلکہ یہ ایک باقاعدہ سائنس ہے۔
اس کتاب کو پڑھنے سے قارئین ان قدرتی قوتوں سے واقف ہو جائیں گے جن کا وہ اپنے قصبات اور دیہات کے آس پاس کے میدانی اور پہاڑی نظروں میں مشاہدہ کرتے ہیں ۔ بہتا ہوا اور ساکن پا نی ، ہوا اور برف کی کاریگری سے چٹانیں تہ نشین ہوتی ہیں جن سے قطع ارض بنتے ہیں اور انہیں عوامل کے عمل سے یہ ارضی قطع کٹ چھٹ کر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔
جب قارئین سطح ارض کی خارجی قوتوں سے واقف ہو جائیں تو ان کو زمین کی داخلی قوتوں کا علم کرایا جائے گا ۔ انہیں داخلی قوتوں سے زلزلے آتے ، آتش فشاں پھٹنے اور پہاڑ بنتے ہیں ۔ اس کے بعد قارئین کو زمین کی پیدائش ، اس کی تاریخ سے زمین پر آغاز زندگی اور موجودہ دور کی اہم تباہ کاریوں catastrophic کا مختصر حال بیان کیا جائے گا ۔ قارئین کو معدنیات کی تشکیل اور ان کی تقسیم کی ترتیب بتا دی جائے گی خاص طور سے روس میں پائے جانے والے معدنیات کا ذکر کیا جائے گا ۔ اس کتاب کے آخری باب میں ارضیات دستاویزوں اور زمین پر ماضی کے نشانات کا مطالعہ کرنے کے طریقوں سے روشناس کرایا جائے گا جو تاریخ ارض سمجھنے اور بیان کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
در حقیقت اس کتاب میں علم ارضیات کے ہر ایک پہلو پر روشنی نہیں ڈالی جا سکتی یہ صرف طبیعی اور حرکاتی ارضیات ,dynamic geology پر مشتمل ہے طبیعی ارضیات میں ان داخلی اور خارجی قوتوں کا ذکر کیا جاتا ہے جو قشر ارض کو تعمیر کرتی ہیں اور اس میں تبدیلیاں لاتی ہیں۔ تاریخی ارضیات مختصر طور پر بیان کی گئی ہے ۔ علم ذخائر ,science of deposits پر سرسری نظر ڈالی گئی ہے علم ذخائر ، علم ارضیات کی تیسری اہم شاخ ہے جس میں قدرتی قوتوں کی کاریگری سے پیدا ہونے والے نتائج اور چیزوں کا مطالعہ کیا جا تا ہے۔
علم ارضیات کی پوری شاخ علم تجربات petrography or -petrology ہے ۔ قشر ارض چٹانوں سے بنا ہے۔ علم حجریات میں انہیں چٹانوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ اس کتاب میں علم حجریات کے صرف مبادیات کا ذکر کیا گیا ہے۔
طبیعی ارضیات Physical geology میں علم ارضیات کی مختلف مخصوص شاخوں کا مختصر ذکر ہوتا ہے اور یہ کتاب اس مقصد کو پورا کرتی ہے۔
یہ ایک عام فہم کتاب ہے اور ان نوجوان قارئین کے لئے لکھی گئی ہے جو علم طبیعات اور علم کیمیا کے بنیادی اصولوں سے واقف ہیں۔
اس کتاب کو اس ربط سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ کیا جاسکتا ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں