غیر معمولی چمک اور جلد مر جانے والے درجنوں سورجوں کی کمیت کے ساتھ پیدا ہوئے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنی زندگی تیزی سے جیتے ہیں تصور کیجئے کہ ایک اس قدر بڑا ستارہ سورج کی جگہ لے کہ زحل کے مدار تک نظام شمسی اس کے گھیرے میں آ جائے۔ ایک ایسا ستارہ جو ایک لمحے میں اس قدر توانائی پیدا کرے جو ہمارا سورج سو دنوں میں پیدا کرتا ہے۔ آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہم لمبی لمبی ہانک رہے ہیں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ کائنات ہے ہی اتنی عجیب و غریب جگہ کہ اس کے مظاہر سمجھتے ہوئے ہمیں عقلیں چکرا جاتی ہیں۔ تو جناب ایسے ستارے بالکل وجود رکھتے ہیں۔ یہ بہت ہی عجیب و غریب ستارے ہوتے ہیں۔
غیر معمولی عظیم الجثہ والے ستارے لاکھوں سورجوں جتنی چمک پیدا کرتے ہیں۔ ان کی پیدائش بھی اسی بین النجمی ہائیڈروجن کے بادلوں سے ہوتی ہے جس سے عام ستارے بنتے ہیں، تاہم ان کی کمیت جو کہ سورج کی کمیت کے دسیوں گنا یا سینکڑوں گنا تک ہو سکتی ہے، زبردست اندرونی دباؤ ڈالتی ہے جس سے ان کے اندرون میں زبردست حرارت پیدا ہوتی ہے اور یہ حرارت قلب میں جاری نیوکلیائی عمل گداخت کو تیز کر دیتی ہے۔
سورج جیسا کوئی بھی ستارہ نسبتاً کم ہائیڈروجنی ایندھن پر بھی دس ارب برس تک قائم و دائم رہ سکتا ہے۔ اس کے برخلاف ایک غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ سینکڑوں گنا زیادہ دستیاب ایندھن کی موجودگی میں بھی صرف چند کروڑ برس یا اس سے بھی کم تک جی سکتا ہے۔ نہایت آب و تاب اور شان و شوکت کے ساتھ یہ کم عمر کائناتی مینارہ ہوتا ہے۔
دوسرے ستاروں کی طرح اس غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کی طبیعی خصوصیات کا انحصار قلب سے فرار ہوتی توانائی کے باہر جاتے ہوئے "اشعاعی دباؤ" اور کمیت کے زبردست ثقلی کھچاؤ سے پیدا ہونے والے اندرونی دباؤ کے درمیان نازک توازن پر ہے۔ نتیجتاً غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنی ظاہری چمک دمک دوران زندگی میں تبدیل کرتے رہتے ہیں۔
زمین پر موجود ماہرین فلکیات ان تبدیلیوں کا سراغ مختلف ستاروں کی رنگت اور چمک میں ہونے والے تفاوت کی حدود کی پیمائش کرکے کرتے ہیں۔ یہ بات دھیان میں رہے کہ اگرچہ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کائناتی پیمانے پر جلد جیتے اور مرتے ہیں تاہم ان کی زندگی میں تیزی سے ہونے والی تبدیلیاں اتنی تیز بھی نہیں ہوتیں کہ انسانی زندگی کے درمیان اس کے ارتقا کو دیکھا جا سکے۔ ایسے کئی ستاروں کی خصوصیات کو ہرٹزاسپرنگ-رسل ڈیاگرام پر پلاٹ کرکے وہ ان کے درمیان تعلق اور ممکنہ راستوں کو جان سکتے ہیں جن سے گذر کر ستارہ ایک سے دوسری قسم میں بدلتا ہے۔
یہ تو واضح ہے کہ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنی مختصر عمر کے زیادہ تر حصے میں نیلے چمک دار ستاروں کی طرح رہتے ہیں۔ ان کا ممکنہ درجہ حرارت 50,000 ڈگری سیلسیس (90,000 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے جبکہ ان کے مقابلے میں سورج کا 5,500 ڈگری سیلسیس (9,930 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔ تاہم بعد میں کئی رنگ کی حد میں سرخ کنارے کی طرف ارتقا پر گامزن ہو جاتے ہیں جن کی سطح کا درجہ حرارت ممکنہ طور پر 3,000 ڈگری سیلسیس (5,430 ڈگری فارن ہائیٹ) ہوتا ہے۔
ستارے کی سطح کے درجہ حرارت کا انحصار اس کی سطح کے ہر مربع میٹر سے فرار ہونے والی توانائی کی مقدار پر ہوتا ہے، لہٰذا ستارے کی چمک دمک، رنگ اور اس کے حجم میں ایک براہ راست ربط ہوتا ہے۔ یعنی کہ ایک ٹھنڈے مخصوص چمک کے سرخ ستارے کو لازمی طور پر اسی چمک کے نیلے ستارے کے مقابلے میں گرم ستارے سے نمایاں طور پر بڑا ہونا چاہئے۔ "غیر معمولی عظیم الجثہ" ستارے کی اصطلاح ستارے کے طبیعی حجم کے بجائے ستارے کی چمک کو بیان کرتی ہے۔ لہٰذا نیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ اصل میں اس سرخ دیو کے مقابلے میں چھوٹا ہو سکتا ہے جو سورج جیسے ستارے اپنی عمر کے آخری حصے میں بنتے ہیں۔ اس کے باوجود غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے ان سے کئی گنا زیادہ روشن ہوتے ہیں۔ بہرحال سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کائنات کے سب سے بڑے ستارے ہوتے ہیں۔ شاید ان میں سب سے زیادہ مشہور شمالی برج قیقاؤس کا ایم یو سیفائی نامی ستارہ ہے۔ اپنے گہرے سرخ رنگ کی وجہ سے یہ یاقوتی ستارے کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ یہ اس قدر بڑا ہے کہ اس میں ارب ہا سورج سما سکتے ہیں۔
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اس انتہا کا مظاہرہ اپنی ضخیم کمیت کی وجہ سے کرتے ہیں۔ دیگر ستاروں کی طرح یہ بھی اپنی زندگی کا "مین سیکوئینس" حصہ اپنے قلب میں موجود ہائیڈروجن گیس کو جلا کر ہیلیئم میں بدلنے میں گذارتے ہیں۔ اگرچہ عام ستارے اس سست زنجیری عمل میں نسبتاً آسانی کے ساتھ ہائیڈروجن کو جلاتے ہیں جس میں وہ جوہری مرکزے کے اٹکل پچو ٹکراؤ پر انحصار کرتے ہیں۔ تاہم غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے قلب میں موجود زبردست دباؤ ان کو زیادہ تیز رفتار اور اثر آفرین رد عمل کو کام میں لاتا ہے جس کو کاربن نائٹروجن آکسیجن (سی این او) کا چکر کہتے ہیں۔
غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے قلب میں جاری رہنے والی رد عمل کی شرح زبردست باہری شعاعی دباؤ پیدا کرتی ہے جو ستارے کی باہری پرتوں کو نگل جاتی ہے۔ ستارے کے مین سیکوئینس دور میں تجاذب کا کھچاؤ ستارے کو چند شمسی قطر تک مستحکم کر دیتا ہے۔ اگرچہ یہ سننے میں بہت جسیم لگتا ہے تاہم یہ سطح کے لئے اتنا ہی ہوتا ہے کہ وہ جھلسا دینے والی گرم رہ سکے اور اس کی رنگت سفیدی مائل نیلی ہوتی ہے۔ جب قلب میں ہائیڈروجن کی رسد ختم ہو جاتی ہے تو یہ آس پاس کے خول کے ایندھن کو جلانا شروع کر دیتا ہے تاکہ چمکنا برقرار رکھے۔ حیرت انگیز طور پر اس کی یہ کوشش اس کو مزید چمکدار بنا دیتی ہے اور فراری اشعاع کا اضافی دباؤ ستارے کی بیرونی سطح کو پھلا کر ٹھنڈا کرکے ایک پیلے، نارنجی یا سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے میں تبدیل کر دیتی ہے۔ تبدیلی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ کس طرح سے توازن قائم ہوا۔
تاہم کئی غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کبھی بھی اس مرحلے تک نہیں پہنچ پاتے اور اپنی مختصر حیات کے دوران نسبتاً گرم اور دبے ہوئے رہتے ہیں۔ یہ ایسا اپنی بیرونی پرت کو خلا میں پھینک کرتے ہیں۔ بعینہ ہمارا سورج جس طرح شمسی ہوائیں خارج کرتا ہے تاہم ان کی شمسی ہوا اس سے کہیں زیادہ طاقت ور ہوتی ہے۔ "ولف رایت" نامی ستارے ہر ایک لاکھ برس میں سورج جتنی کمیت کا مادہ اتار پھینکتے ہیں جس سے ان کا گرم قلب اور زیادہ افشا ہوتا ہے۔
اپنی زندگی کے اختتام تک ایسا کوئی بھی ستارہ غیر مستحکم ہو سکتا ہے اور اس وقت وہ روشن نیلے متغیر ستارے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا ستارہ ہوتا ہے جس میں اچانک طوفان آنے کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔ ایسے ستارے اکثر پہلے انفجار سے نکلنے والے گیس کے بادلوں میں گھرے ہوتے ہیں۔ اس کی سب سے زیادہ مشہور مثال ایٹا کرائینی ہے – ایک ثنائی نظام جس میں ایک سو شمسی کمیت والا چمکدار نیلے متغیر ستارے کے گرد ایک تیس شمسی کمیت کا نیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ چکر لگا رہا ہے۔ 1840ء کی ابتدائی دہائی میں ایک بڑے پھٹاؤ میں ایٹا کرائینی اپنی معمول کی چمک سے اتنا بڑھ گیا تھا کہ خالی آنکھ سے دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ آسمان میں دوسرا روشن ترین ستارہ بن گیا تھا۔ آج بھی یہ نظام اس گیس و گرد کے بادلوں میں گہرا ہوا ہے جن کا اس سے اخراج ہوا تھا۔
غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے ارتقا کے بارے میں ماہرین فلکیات ابھی پوری طرح نہیں جان پائے ہیں۔ تاہم ان کا انجام وہ بہت اچھی طرح سے جانتے ہیں۔ ہمارے سورج جیسے کم کمیت والے ستاروں کی موت نہایت گمنامی میں ہوتی ہے۔ ایسے ستاروں میں مختصر عرصے میں رہنے والی ہیلیئم کے جلنے سے پیدا ہونے والی 'دوسری ہوا' کے بعد ستارہ غیر مستحکم ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ستارے کی بیرونی پرت ہٹ کر سیاروی سحابیہ بناتی ہے۔ ستارے کے جلے ہوئے قلب میں ایک سفید بونا باقی رہ جاتا ہے۔ دیوہیکل سیارے اور غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے عناصر کو اس وقت تک مسلسل جلا کر دوسرے عناصر میں بدلتے رہتے ہیں جب تک لوہے کا عنصر نہیں بن جاتا۔ لوہا کا عنصر ستارے میں بننے والا وہ پہلا عنصر ہے جو اپنی تشکیل کے دوران اس سے زیادہ توانائی جذب کرتا ہے جتنی کہ اس کے بننے کے دوران خارج ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جب ستارے کی توانائی کی رسد یک دم سے بند ہو جاتی ہے اور اس کی بیرونی پرت قلب سے اچھلنے سے پہلے اندر کی طرف منہدم ہو جاتی ہے۔ نتیجے میں پیدا ہونے والی صدماتی امواج ستارے کی اوپری پرت میں زبردست قسم کا نیوکلیائی تعامل شروع کر دیتی ہے اور یوں ایک سپر نوا کا دھماکہ ہوتا ہے۔ اس میں اس قدر چمک پیدا ہوتی ہے کہ روشن ترین غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کی روشنی بھی اس کے سامنے ہیچ نظر آتی ہے۔ یہ روشنی اس قدر ہوتی ہے کہ مختصر عرصے کے لئے کل کہکشاں کی روشنی کو بھی گہنا دیتی ہے۔کئی مرتبہ دھماکے سے پیدا ہونے والی صدماتی امواج ستارے سے ہزاروں سال پہلے خارج ہوئے مادے میں بھی آگ لگا دیتی ہیں۔ جب کبھی ایسا ہوتا ہے تو غیر معمولی طور پر روشن سپرنووا کا دھماکہ ہوتا ہے جس کو ہائپر نووا کہتے ہیں۔
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے تیزی سے جیتے اور جلدی سے مرجاتے ہیں۔ ماہرین فلکیات نے حال ہی میں سب سے بڑا اور ان میں سے خطرناک ترین ستارہ دریافت کیا ہے۔ R136a1 نامی ستارہ سورج سے 87 لاکھ گنا زیادہ روشن ہے جبکہ اس کی کمیت سورج سے 256 گنا زیادہ ہے۔ R136a1 ٹرنٹولا سحابیہ کے قلب میں واقع ہے۔ یہ سحابیہ بڑے میجیلانی بادل میں موجود ستاروں کو پیدا کرنے والا زبردست علاقہ ہے۔ بڑا میجیلانی بادل ہمارے کہکشاں کی سیارچہ کہکشاں ہے۔
2010 میں دریافت ہوئے اس دور دراز ستارے نے اس حد کی تصدیق کردی جس حد تک ستارہ اپنے آپ کو پھاڑے بغیر بڑا ہو سکتا ہے۔ اس کی کمیت میں بڑی تیزی سے کمی ہورہی ہے اور یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ اپنی دس لاکھ برس پر محیط حیات کے دوران 50 شمسی کمیت جتنا مادہ پھینک ڈالے گا۔ جب کائناتی دیوہیکل اپنی حیات ختم کرے گا تو یہ ایک ایسے نایاب 'پیئر ان اسٹیبلیٹی' سپرنووا کی صورت میں پھٹے گا جو عام سپرنووا سے 50 گنا زیادہ چمک دار ہوگا اس وقت یہ زمین کے آسمان میں کئی مہینوں تک سب سے چمک دار ستارہ ہوگا۔ روشن ستاروں میں اکثر ایٹا کرائینی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں پھٹ جائے گا۔ تاہم کیا آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ R136a1 کب پھٹے گا؟ 'پیئر ان اسٹیبلیٹی' والے ستارے اپنے رشتے داروں کی طرح پہلے سے خبردار نہیں کرتے، لہٰذا یہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔۔۔
غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے بارے میں پانچ اہم باتیں
1۔دیوہیکل نونہال
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنا ایندھن بہت تیزی سے خرچ کر ڈالتے ہیں لہٰذا ان میں سے اکثریت اپنی پیدائش کی جگہ یعنی ستاروں کی جائے پیدائش سے ہی متوسط رہتی ہے۔
2۔ از سر نو ترتیب
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اس قدر کمیاب ہیں کہ ان کو معیاری تابانی کے نظام کی جماعت میں شامل ہی نہیں کیا گیا تھا۔ ماہرین فلکیات کو مجبوراً "کلاس O" کو سب سے زیادہ چمکدار سے بھی چمک دار کلاس میں شامل کرنا پڑا۔
3۔ بلیک ہولز کے جد امجد
ان کے قلب کی کمیت ہی پانچ یا اس سے زیادہ شمسی ہوتی ہے لہٰذا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے ہی وہ ممکنہ ستارے ہیں جو سپرنووا کے دھماکے سے پھٹنے کے بعد اپنے پیچھے بلیک ہولز چھوڑتے ہیں۔
4۔ درجہ بندی کی پریشانی
غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کی کئی مختلف اقسام کے درمیان موجود پریشانی کی وجہ سے بہت سے ماہرین کوشش کرتے ہیں کہ اس سے بچا جا سکے۔
5۔ غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کا بادشاہ
سب سے بڑے معلومہ ستارے کے کئی امیدوار ہیں، تاہم کچھ تخمینہ جات اس بات کا عندیہ دے رہے ہیں کہ ویسٹر لنڈ 1-26 نامی غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کا قطر 2,500 سورجوں کے برابر ہے۔
کیا آپ جانتے ہیں؟
2012 میں ماہرین فلکیات کو "روشنی کی گونج" ملی – یہ روشنی 1843 میں ایٹا کرائینی سے نکلنے والے طوفان کی تھی جو دور دراز کے سحابیہ نے منعکس کی تھی۔
عظیم الجثہ ستاروں کی تشکیل کا مسئلہ
غیر معمولی ستاروں کی کمیابی نے ماہرین فلکیات کو پریشانی میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ وہ ان چند ستاروں کو ستاروں کی درجہ بندی میں درست مقام پر رکھنے کی سعی میں لگے ہوئے ہیں۔ ابھی تک وہ وولف رایت اور تاباں نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے درمیان کے ربط کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے۔ وہ یہ سبھی سمجھتے ہیں کہ پیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کی اپنے عزیز غیر معمولی عظیم الجثہ ستاروں کے مقابلے میں کمیت کافی کم ہے اور ان کا زیادہ قریبی تعلق سرخ سپر جائنٹ ستاروں سے بنتا نظر آتا ہے۔
256 شمسی کمیت رکھنے والا R136a1 ستارے نے بھی ماہرین کو مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ اس کی دریافت سے پہلے ماہرین یہ سمجھتے تھے کہ ستارے کے بڑے سے بڑا بننے کی حد 150 شمسی کمیت ہے۔ اس سے بڑا ستارہ اپنے آپ کو پھاڑ لے گا۔ ان ستاروں کے بارے میں اب بھی سوالات کے جوابات ڈھونڈے جا رہے ہیں۔ ماہرین فلکیات نے اس عمل کی تفصیلات حاصل کی ہیں جو ہمارے سورج جیسے چھوٹے ستاروں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
پانچ مشہور غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے
1۔ یاقوتی ستارہ
برج قیقاؤس میں خالی آنکھ سے دیکھا جا سکنے والا ستاروں آسمان میں سب سے زیادہ سرخ ستارہ ہے یہ ستارہ ہماری کہکشاں کے سب سے بڑے ستاروں میں سے ایک ہے۔
2۔ وی وائے کینس میجورس
کلب اکبر کے برج میں موجود یہ سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ شاید اب تک کا سب سے بڑا معلوم ستارہ ہے۔ کچھ تخمینہ جات بتاتے ہیں کہ یہ اس کا قطر سورج کے گرد زحل کے مدار سے بھی زیادہ بڑا ہے۔
3۔ ایس ڈوراڈس
روشن ترین ستاروں میں سے ایک یہ نیلا متغیر ستارہ بڑے میجیلانی بادل (ملکی وے کہکشاں کی سیارچہ کہکشاں) میں واقع ہے۔ یہ اپنے دوری طوفانوں کو چھوڑتا ہے تاہم طویل عرصے سے یہ مستحکم ہے۔
4۔ پستول ستارہ
ملکی وے کہکشاں کے مرکز کے قریب ستاروں کے کثیف بادلوں کی اوٹ میں چھپا ہوا یہ نیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ چند ہزار برس پہلے اپنی ہی گیس و دھول سے بنے ہوئے سحابیہ میں گھرا ہوا ہے۔
5۔ ایٹا کرائینی
یہ ثنائی ستارے کا نظام جڑواں گوشہ دار بالشتیہ سحابیہ میں پیوست ہے اور ممکن ہے کہ جلد ہے سپرنووا کے دھماکے میں انجام بخیر ہوگا۔
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کا اندرون
اہم پرتیں جس سے مل کر بڑا روشن نیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ بنتا ہے
قلب کا علاقہ
اس طرح کے ضخیم نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کا قلب کاربن کو جلا کر بھاری عناصر بنانے کی وجہ سے چمکتا ہے۔
اندرونی خول
قلب کے گرد موجود خول ہیلیئم جلا کر کاربن بنا کر توانائی پیدا کرتا ہے۔ ستارے میں پیاز کی پرتوں کی طرح گداختی پرتوں کا سلسلہ بن سکتا ہے۔ بھاری عناصر قلب کے قریب ہوتے ہیں۔
بیرونی خول
سب سے بیرونی گداختی خول میں ہائیڈروجن ہیلیئم میں ضم ہو رہی ہوتی ہے۔ یہ وہی عمل ہے جو ستارے کے قلب میں اس کی زندگی میں زیادہ تر چلتا ہے۔
ہائیڈروجن کا لفافہ
ہائیڈروجن کی ایک گہری پرت (اصل پیمانے پر نہیں دکھائی گئی ہے) جلنے میں کوئی حصہ نہیں ڈالتی۔ ستارے کی زبردست کشش اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ اشعاع کے بیرونی دباؤ کے باوجود یہ اچھی طرح دبی ہوئی رہے۔
ضیائی کرہ
یہ پرت وہ نقطہ ہے جہاں سے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کا اندرون شفاف ہو جاتا ہے۔ یہاں سے روشنی کو فرار ہونے کا موقع ملتا ہے۔ نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے میں یہ حرارت کو کئی ہزار ڈگری سیلسیس تک پہنچا دیتی ہے۔
بیرونی فضا
اکثر غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے کے گرد ایک وسیع کرۂ فضائی یا کرونا ہوتی ہے جو ستارے کے حجم سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ نظر آنے والی سطح اور کرونا ایک دوسرے کو دھندلا دیتی ہیں جس سے ستارہ بھی دھندلا جاتا ہے۔
زمین سے تقریباً 8 ہزار نوری سال کی مسافت پر موجود ایٹا کرائینی ایک غیر معمولی عظیم الجثہ ثنائی ستارہ ہے؛ جبکہ وی وائے کینس میجورس زمین سے 4 ہزار نوری سال کی مسافت پر ایک سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ ہے۔
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اس قدر بڑا حجم کیسے حاصل کرتے ہیں؟
ہرٹز اسپرنگ – رسل ڈایاگرام ستاروں کی خصوصیات کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے
تابانی
ستارے کی مطلق روشنی کی مقدار ڈرامائی طور پر متغیر ہوتی ہے، ہمارے سورج کے مقابلے میں کچھ ستاروں کی روشنی کروڑ ہا گنا زیادہ سے لے کر ایک لاکھ گنا کم تک ہو سکتی ہے۔
اہم سلسلہ (مین سیکوئینس)
ستاروں کی وسیع تعداد مدھم سرخ بونے سے لے کر روشن نیلے دیوہیکل ستاروں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ یہی وہ جگہ ہے جہان ستارے اپنی عمر عزیز کا زیادہ تر وقت گذارتے ہیں۔
نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے
کائنات میں کچھ سب سے روشن ستاروں میں جانے والے نیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے اپنی بیرونی پرتوں کو اڑا کر وولف رایت ستارے بن جاتے ہیں جو بالآخر تاباں نیلے متغیروں میں ڈھلتے ہیں۔ مثال کے طور پر پستول ستارہ سورج سے ایک کروڑ گنا زیادہ روشن ہے۔
غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے
یہ سب سے زیادہ ضخیم ستارے ہیں۔ ان کے مکمل ارتقا کا مطالعہ ابھی زیر تحقیق ہے۔
پیلے غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے
ہماری کہکشاں میں پائے جانے والے نایاب ستاروں میں سے ایک پیلا غیر معمولی عظیم الجثہ ستارہ ہے۔ گمان کیا جاتا ہے کہ یہ سرخ سپر جائنٹ ستاروں سے بنے ہوں گے۔ رو کیسیوپیا کا درجہ حرارت 4,000-8,000 کیلون کے درمیان ڈولتا رہتا ہے۔
سرخ غیر معمولی عظیم الجثہ ستارے
کائنات کے سب سے بڑے ستارے بننے کے لئے زیادہ ضخیم ستارے روایتی ارتقائی راستہ، تابانی اور پھولنے کو چنتے ہیں۔ مثال کے طور پر وی وائے کینس میجورس کے قطر کا تخمینہ سورج کے قطر سے 1,800-2,100 گنا زیادہ لگایا گیا ہے۔ اس کا درجہ حرارت 3,000 کیلون ہے۔
طیفی جماعت
ماہرین فلکیات ستاروں کو ان کے طیف کی مختلف خصوصیات کے لحاظ سے درجہ بند کرتے ہیں۔ عام بطور پر اس میں ان کی رنگت اور درجہ حرارت کی پیمائش کی جاتی ہے۔
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں