رنگین دورنمائی (کلر ٹیلی ویژن) کس طرح کام کرتی ہے ؟ زمین سے ایک ہزار میل دور مدار پر ، ہم ایک فضائی چبوترا (فضائی اڈہ /اسپیس اسٹیشن) کیسے قائم کرنے جا رہے ہیں؟ انسان نے راکٹ کے ذریعے چاند تک پہنچنے کا منصوبہ کس طرح باندھا ہے ؟ شمسی برقی مورچہ کیا ہے ؟ ٹرانزسٹر کس طرح کام کرتا ہے ؟
اگر آپ نے اپنے آپ سے کبھی یہ سوالات کئے ہیں تو آپ میں سائنس دانوں کا ذوق جستجو موجود ہے۔ سائنس والے دنیا کے آگہی طلب لوگوں میں سب سے آگے ہیں - یہ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ دنیا کی چیزوں کے متعلق سوال کرتے رہتے ہیں ۔ لیکن وہ صرف سوالات پر ہی قناعت نہیں کرتے بلكہ مطالعہ اور تجربہ سے اس کا جواب بھی حاصل کرتے ہیں ۔
اس لئے اگر آپ سوالات کرتے ہیں اور ان چیزوں کے متعلق جو آپ کے گرد و پوش واقع ہو رہی ہیں، شوق تحقیق رکھتے ہیں تو خود آپ کے اندر سائنس دانوں کی کیفیت موجود ہے۔ اور جب آپ نے یہ کتاب کھولی تو سائنسی مزاج کا اظہار کیا ، کیوں کہ آپ اپنے سوالوں کے جواب چاہتے ہیں - آپ موٹروں ، آب دو زوں، ہوائی جہازوں ، ارضی سیاروں ، جوہری توانائی ، دورنمائی اور دوسرے عجائبات کا ، جو موجود ہیں یا جن کو سائنس دان ایجاد کر رہے ہیں ، حال معلوم کرنا چاہتے ہیں۔
آگے کے صفحات میں آپ کو سائنسدانوں کا طریقہ کار اور ان کی بہت سی دریافت کی ہوئی چیزوں کا حال معلوم ہو جاۓ گا. یہ معلوم کرکے کہ ہماری آجکل کی بہت سی ایجادیں کس طرح وجود میں آئیں ، آپ کو بہت تعجب ہوگا۔ کیونکہ ہم اکثر سائنس دانوں کے متعلق یہ سوچتے ہیں کہ یہ پراسرار عورتیں اور مرد ، عجیب و غریب تجربہ خانوں میں تنہا کام کرتے رہتے ہیں۔ اور جادو کے اشارے کر کر کے معجزے وجود میں لاتے ہیں ۔ لیکن جیسے جیسے ہم پڑھتے جائیں گے ہمیں معلوم ہوگا کہ بہت سی اہم اور نمایاں انکشافات جن سے آج کل کی اہم ایجادیں وجود میں آئیں ہیں ، کسی ایک شخص کی نہیں ، بلكہ متعدد اشخاص کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔ ہر بڑی ایجاد یا انکشاف ان کا ایک نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ، کسی نے کچھ سوچا ، کچھ تجربے کئے ، کچھ جانچ پڑتال کی اور ایک خیال نے جنم لیا۔ دوسرے نے اس خیال کو اپنایا، اس پر کچھ اور کام کیا کچھ تبدیلی کی اور دوسرے لوگوں کی طرف اس کو بڑھا دیا - کبھی کبھی اس عمل میں سینکڑوں سال لگ گئے ۔
مثلاً بجلی کے چند اثرات آج سے ڈھائی ہزار سال پہلے دریافت ہوئے تھے۔ پہلا بھاپ انجن دو ہزار سال پہلے بنایا گیا تھا۔ کیمرے کے بنیادی اصول تقریباً آٹھ سو سال پہلے معلوم تھے ۔ آج سے چار سو سال قبل ہوائی جہاز کے اصول اور ہیلی کاپٹر کا خاکہ پیش کیا گیا تھا اور ہوائی چھتری ایجاد کی گئی تھی۔ پھر بھی ان تصورات کو عملی ایجادات کی شکل دینے میں سینکڑوں سال لگ گئے ۔
ان ایجادوں کے ترقی پانے میں سینکڑوں سال کیوں لگ گئے ؟ اس کی بہت سی وجوہ ہیں ۔ ایک اہم ترين وجہ یہ ہے کہ گذشتہ صدیوں میں انسانوں کے درمیان مواصلات کا ذریعہ بہت کم تھا - نہ تو ٹیلیفون تھا نہ قابل اعتبار ڈاک کا انتظام - ایک مقام سے دوسرے مقام تک سفر کرنا طویل اور خطرناک کام تھا، کیونکہ نہ موٹریں تھیں نہ ریلیں اور نہ زیادہ سڑکیں - کتابیں کم یاب اور قیمتی ہوتی تھیں اور مشکل سے ملتی تھیں ۔ اس لئے اگر کوئی شخص کوئی سائنسی دریافت کر لیتا تو اس کے پاس ، دنیا کے دوسرے گوشے کے لوگوں کو، یہ بتانے کا کہ اس نے کیا معلوم کیا ، کوئی ذریعہ نہیں تھا ۔ نتیجہ بہ ہوتا کہ دوسرے لوگ اس نئی دریافت سے بے خبر رہتے تھے اور کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے تھے ۔ قبل اس کے کہ یہ لوگ اسی راستے پر اور کامیابی حاصل کر ان کے لئے یہ ضروری ہو جا تا تھا کہ اسی دریافت کو پھر نئے سرے سے معلوم کریں ۔
ظاہر ہے کہ ان حالات میں سائنسی ترقی کا مستقبل کچھ بہت روشن نہیں تھا۔ ذرا خیال کیجئے کہ بجلی اور آواز کے اصولوں کو جانے بغیر ٹیلیفون کا ایجاد کرنا کس طرح ممکن تھا ۔ خوش قسمتی سے الیگزینڈر گرا ہم بل کو، جس نے ٹیلی فون ایجاد کیا ، ان اصولوں کو دریافت کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ۔ دوسرے لوگ جو اس سے پہلے پیدا ہونے تھے ان کو دریافت کر چکے تھے ۔ انہوں نے اپنی دریافتوں کو درج کر دیا تھا جن کا بل مطالعہ کر سکتا تھا ۔
آپ نے ملاحظہ کیا کہ سائنسی کام کرنے والوں کے لئے پرانی تحقیقات کا مطالعہ کس قدر ضروری ہے۔ ایک اطالوی نے ایک برق مورچہ ایجاد کیا جس سے بجلی کی ایک رو پیدا ہوتی تھی۔ ایک فرانسیسی نے مقناطیس اور بجلی کا تعلق معلوم کیا ۔ ایک جرمن نے برقی مزاحمت کے اصول معلوم کئے ، اور ایک امریکی نے ان تمام اصولوں کو جمع کر کے ٹیلیفون بنایا -
لیکن یہ کوئی واحد مثال نہیں - ہم کسی بھی جدید ایجاد کا تصور نہیں کر سکتے ہیں جو صرف ایک شخص کی کوششوں سے وجود میں آئی ہو - ایسی تمام کامیابیاں مختلف قومیتوں کے اور مختلف زبانوں کے عورتوں اور مردوں کی ایسی کوششوں سے ، جن سے ابتدائی دریافت کی داغ بیل پڑی ، وجود میں آئی ہیں ۔
لوگ ایجاد وں کا سہرا افراد کے سر باندھنا چاہتے ہیں -- وہ کہتے ہیں کہ واٹ نے بھاپ انجن ، ایڈیسن نے برقی روشنی اور رائٹ برادران نے ہوائی جہاز ایجاد کیا ۔ اس میں شک نہیں کہ ان ذہین حضرات کی ، ان کاموں کے سلسلے میں، جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ۔ لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ان میں سے کوئی اپنے کام کو اکیلا نہیں کر سکتا تھا ۔ ان سے پہلے کے لوگوں نے ابتدائی مسالہ ، یعنی بنیادی تصور پیش کیا جس پر ان کی لاجواب ایجادوں کی بنیاد قائم ہوئی ۔
آپ جیسے جیسے آگے کے صفحات پڑہیں گے، آپ دیکھیں گے کہ مختلف اقوام کے بڑے بڑے لوگوں کے دماغوں سے اہم خیالات کس طرح وجود میں آئے ہیں ۔
کسی ایک قوم میں دماغی صلاحیتوں کی اجارہ داری نہیں ہے ۔ اگر سائنس کی ترقی کو بغیر كم ہوئے جاری رہنا ہے تو مختلف ملکوں کے بڑے بڑے دماغوں کو آزادانہ تبادلہ خیالات کرنا ہوگا - جب کرہ ارض کے تمام سائنسدانوں کے درمیان نئے خیالات کا تبادلہ ہوتا رہے گا تو پھر ہم امید کر سکتے ہیں کہ سائنسی ترقی قائم اور دریافت جاری رہے گی۔
نوٹ: یہ مضمون "سائنس ہمارے لئے" کے پہلے باب سے ماخوذ ہے جسے اردو سائنس اکیڈمی سندھ نے اگست 1958 میں شائع کیا تھا۔
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #سائنس_ہمارے_لئے #ولیم_ایچ_کراؤز #میجر_آفتاب_حسن #جین_بینڈک #اردو_اکیڈمی_سندھ_کراچی
#jahanescience
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں