حیرت کی بات ہے کہ انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کے اعتراف میں . بیسویں صدی کے جس ایوارڈ کو سب سے زیادہ عزت اور پذیرائی ملی ہے اس کے بارے میں عام لوگوں کی کیا خاص کی معلومات بھی بہت کم ہیں ۔ گزشتہ چند مہینوں میں میں نے مختلف لوگوں سے الفریڈ نوبیل کے بارے میں بات چھیڑی لیکن کم و بیش سب کے سب کی معلومات کا دائرہ سات آٹھ جملوں تک ہی محدود تھا ، یہی کہ اس کا تعلق سویڈن سے تھا ، اس نے ڈائنامائٹ ایجاد کیا تھا ، اپنی ساری جائیداد کا ایک ٹرسٹ بنا دیا تھا جس سے ہر سال مختلف شعبوں میں اعلی کارکردگی پر نوبل پرائز دیئے جاتے ہیں جو فی الوقت دنیا میں اعلی ترین اعزاز سمجھا جاتا ہے اور یہ کہ 1901ء سے ہر سال یہ ایوارڈ تقسیم کیے جا رہے ہیں ۔ ٹیگور اور ڈاکٹر عبد السلام کے علاوہ بھی بر صغیر سے تعلق رکھنے والے دو تین لوگوں کو یہ انعام مل چکا ہے اور ....................... بس۔
- چند برس قبل باقر نقوی صاحب نے جن کا شعبہ اکاؤنٹس اور وجہ شہرت ان کی اردو شاعری ہے ایک گفتگو کے دوران ذکر کیا کہ وہ آج کل الفریڈ نوبیل کے بارے میں مختلف کتابیں اور معلومات جمع کر رہے ہیں جو انتہائی دلچسپ کام ثابت ہو رہا ہے اور یہ کہ موصوف شاعر بھی تھے ثبوت کے طور پر انہوں نے ایک نظم کی کچھ باتیں بھی سنائیں جو حال ہی میں ان کے ہاتھ لگی تھی۔
اردو سائنس بورڈ کا چارج لینے کے بعد ایک دن الفریڈ نوبیل کے حوالے سے ایک تحریر سامنے آئی تو خیال آیا کہ کیوں نہ نوبیل کے حالات زندگی اور کمالات و فن کو ایک کتابی شکل میں جمع کیا جائے تاکہ قارئین اس سے استفادہ کر کے اس اہم تاریخی شخصیت اور اس کے نام پر جاری ، اس عظیم ایوارڈ کے بارے میں جان سکیں جس کا سایہ پوری بیسویں صدی پر پھیلا ہوا ہے ۔ فورا دھیان باقر نقوی صاحب کی طرف منتقل ہوا ، انہوں نے بخوشی یہ کتاب لکھنے کی حامی بھر لی جو اس وقت آپ کے ہاتھوں میں ہے۔
باقر نقوی صاحب نے بڑی محنت اور یقین سے نہ صرف بڑے دلچسپ انداز اور رواں تحریر میں الفریڈ نوبیل کی داستان حیات قلم بند کی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نوبیل پرائز کے آغاز سے لے کر 1997 تک کے تمام ایوارڈ یافتگان کے بارے میں بھی بنیادی معلومات یکجا کر دی ہیں اور یوں اب ہم آسانی سے جان سکتے ہیں کہ کسی شعبے میں کس ملک کے کس آدمی کو ، کس سن میں ، یہ انعام ملا تھا اور یہ کہ اس کے اس انعام یافتہ کام کی نوعیت کیا تھی ۔ اس کے ساتھ بڑ صغیر سے تعلق رکھنے والے نوبیل انعام یافتگان کے لیے ایک خصوصی گوشہ مخصوص کیا گیا ہے اور ان کے بارے میں علاحدہ سے تعارفی مضامین لکھے گئے ہیں کہ یہ لوگ تعداد میں بہت کم ہی سہی مگر اس بات کا ثبوت ہیں کہ تیسری دنیا میں بھی جو ہر قابل کی کمی نہیں اور اگر یہاں تحقیق کا ماحول زیادہ ساز گار ہو اور اس کے لیے متعلقہ وسائل اور سہولتوں کا کچھ نہ کچھ بندوبست ہو سکے تو عین ممکن ہے کہ اکیسویں صدی کے انعام یافتگان میں ہمارے آدمیوں کی تعداد بڑھتی چلی جائے۔
یہ کتاب ایک ایسے وقت میں شائع ہو رہی ہے جب پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے ایک ایٹمی طاقت بن چکا ہے اور اس بات کے شواہد مل ر ہے ہیں کہ قومی اور سیاسی سطح پر سائنس کی اہمیت اور ترویج و ترقی کی ضرورت کو پہلے سے بہت زیاد محسوس کیا جا رہا ہے ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ یہ کتاب نہ صرف قارئین کے علم و شعور میں اضافہ کرے گی بلکہ بالواسطہ طور پر ہماری زندگیوں میں بھی سائنس اور سائنسی شعور کو فروغ دے گی۔
نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔ اس کتاب کو یہاں سے پڑھا جاسکتا ہے۔
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #اردو_سائنس_بورڈ #باقر_نقوی #سوانح_حیات #الفریڈ_نوبیل #نوبل #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس
#jahanescience
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں