یہ مضمون نیشنل جیوگرافیک چینل کے ڈاکومنٹری پروگرام "امیرکن جینئس" کے پروگرام کا آزاد ترجمہ ہے۔ برائے مہربانی مضمون کو نقل کرنے کے بجائے شئیر کیجئے اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو مکمل حوالے کے ساتھ اس کا اشتراک کیجئے۔
ڈیجیٹل عہد کا ظہور دنیا پر اثر انداز ہونے والی دو شخصیتوں کی تلخ دشمنی کا شاخسانہ تھا۔ ان میں سے ایک خداداد صلاحیت کا مالک بل گیٹس تھا۔ اسی نے کمپیوٹر پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والا آپریٹنگ سسٹم دنیا کو دیا۔ جبکہ دوسرا نام تھا اسٹیو جابز کا۔ کمپیوٹر اور ٹیکنالوجی کی دنیا کی بادشاہ کمپنی ایپل کا بانی۔
نوجوان بل گیٹس اپنے لڑکپن میں اکثر دوستوں کے ساتھ مل کر مقامی کمپیوٹر سینٹر کو ہیک کرکے اپنے مشغلے کے طور پر کمپیوٹر کو استعمال کرتا۔ بل گیٹس سیٹل میں مقیم ایک اچھے کھاتے پیتے گھرانے کا لڑکا تھا۔ اچھی تعلیم حاصل کر رہا تھا اور کافی ہوشیار تھا۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بل گیٹس ہر لحاظ سے مسابقتی اور اپنے کام کا دھتی تھا۔ اس کی طبیعت ہی ایسی تھی۔ اسے ہر کام میں اپنی جیت سے سروکار ہوتا تھا۔ اپنے لڑکپن میں بھی بل گیٹس کے پاس اپنے ہم عصروں کے مقابلے میں حیرت انگیز معلومات ہوتی تھیں۔ اسے مین فریم کمپیوٹر چلانا آتا تھا۔ اس زمانے میں مین فریم وہ دیوہیکل کمپیوٹر ہوتے تھے جن سے اعداد شمار کا گورکھ دھندہ صرف ماہرین ہی کر سکتے تھے۔ ان کا استعمال صرف بڑی بڑی کمپنیوں میں ہی ہوتا تھا۔ کمپیوٹر کے میدان کے چوٹی کے ماہرین ہی صرف اس کو چلاتے تھے۔ یہ نہ تو عام آدمیوں کے استعمال کے لئے ہوتا تھا اور نہ ہی عام آدمی کو اسے چلانا آتا تھا۔
1974 میں پرسنل کمپیوٹر کا اس وقت تک کوئی وجود نہیں تھا جب تک نیو میکسیکو کی ایک کمپنی نے پہلا کمپیوٹر متعارف نہ کروایا۔ یہ کمپیوٹر اتنا بڑا تھا کہ عام آدمی اسے استعمال کر سکتا تھا۔ اس کا نام تھا الٹائر 8800۔ یہ ایک طرح کا کھلونا تھا۔ ایک پیچیدہ کھلونا۔ اس نے پرسنل کمپیوٹر کی سمت طے کردی تھی تاہم نہ تو اس میں کوئی اسکرین تھی اور نہ ہی اس میں کوئی کیبورڈ تھا۔ اس میں کوئی بھی ایسی چیز موجود نہیں تھی جو کہ پرسنل کمپیوٹر کا خاصہ ہوتی ہے۔ سب سے زیادہ اہم بات یہ تھی کہ اسے استعمال کرنا اور چلانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جب الٹائر مارکیٹ میں آیا تو بل گیٹس اس وقت ہارورڈ یونیورسٹی کا طالب علم تھا۔ گیٹس اور اس کے دوست پال ایلن نے بھانپ لیا تھا کہ اگر الٹائر کو عام لوگوں کے لئے مفید بنانا ہے تو اس کے لئے ایک پروگرامنگ لینگویج کا ہونا ضروری ہے۔ انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ پروگرامنگ لینگویج وہ بنائیں گے۔ دونوں دوستوں نے اس کی اہمیت جان لی تھی اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا نہیں رہنا چاہتے تھے کہ کوئی دوسرا آئے اور میدان مار لے۔ انہوں نے پنچ کارڈ کی مدد سے ایک ابتدائی پروگرامنگ لینگویج بنائی۔ پنچ کارڈ گتے کی چرخی کی طرح ہوتے تھے جس میں چھید کرکے پروگرامنگ کی کمانڈ دی جاتی تھیں۔ اپنے پروگرام کی اہمیت کو ثابت کرنے کے لئے ضروری تھا کہ الٹائر بنانے والوں کو اسے دکھایا جائے۔
بل گیٹس اور ایلن کمپیوٹر کے استعمال کو آسان بنانے کے اس میدان میں اکیلے نہیں تھے۔ ان سے 3 ہزار میل کی دوری پر پرسنل کمپیوٹر کو بالکل الگ طرح سے بنانے کا سوچا جا رہا تھا۔ اسٹیو جابز نے کالج کی پڑھائی ادھوری چھوڑ دی تھی اور اس وقت وہ ہندوستان کی یاترا سے واپس پلٹا تھا۔ اس کا کمپیوٹر کے استعمال کا بہت ہی محدود تجربہ تھا۔ اس کی طرز زندگی ہیپیوں والی تھی۔ اس کی زندگی نشئی کی طرح اور عام ڈگر سے ہٹ کر تھی۔ اس نے کمپیوٹر کے میدان میں کوئی تجربہ حاصل نہیں کیا تھا۔ اسٹیو جابز کا ایک دوست تھا جس کا نام اسٹیو وزنک تھا۔ اس نے بطور مشغلہ برقیات اور کمپیوٹر کو اپنایا ہوا تھا۔ وزنک کے ذہن میں ایک بالکل اچھوتا اور دھماکہ خیز خیال آیا۔ اس نے مائکرو پروسیسر کے ساتھ الٹائر جیسا کمپیوٹر تو بنایا لیکن اس کمپیوٹر میں وزنک نے دو اہم چیزوں کا اضافہ کر دیا ایک کی بورڈ کا جبکہ دوسرا مانیٹر کا۔ بجائے پنچ کارڈ کو استعمال کرکے پروگرام لکھنے کے اب ٹائپ رائٹر جیسے کلیہ استعمال کرکے پروگرام کو براہ راست لکھا جا سکتا تھا۔ یہ پرسنل کمپیوٹر کی دنیا میں سد شکن (بریک تھرو) تھا۔ پروگرامر جب اپنے پروگرام کو لکھتا تو وہ اس کے سامنے ٹی وی اسکرین پر لکھا ہوا نظر آتا۔ اس وقت اسے بھی نہیں معلوم تھا کہ اس کے اس خیال نے کیسے آنے والی دنیا کو تبدیل کرکے رکھ دینا ہے۔
جابز تو فوراً ہی سحر زدہ ہو گیا تھا۔ تاہم وزنک کے برعکس جابز کو اس بات میں کوئی دلچسپی نہ تھی کہ کمپیوٹر کیسے کام کرتا ہے اسے تو بس اسے بیچنے میں دلچسپی تھی۔ اسٹیو جابز مکمل طور پر کاروباری آدمی تھا۔ اس کا مقصد کمپنی بنانا تھا جبکہ وزنک چاہتا تھا کہ مزے مزے کی چیزیں بنائے اور مزاجوں میں اسی گوناگوں چیز نے دونوں کے تعلق کو مضبوط بنایا۔
دوسری جانب بل گیٹس اپنے دوست پال ایلن کے پیغام کا انتظار کر رہا تھا جو الٹائر کے لئے بنائے گئے پروگرام کو چلا کر دکھا رہا تھا۔ یہ بہت ہی سادہ سا پروگرام تھا۔ لیکن اس میں چند کمانڈ دے کر کمپیوٹر کو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ گیٹس اور ایلن نے پرسنل کمپیوٹر کے لئے اپنا پہلا پروگرام بیچ ڈالا تھا۔ یہ کامیابی ایسی تھی کہ بل گیٹس نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کرنے کا رسک لینے کا سوچ لیا تھا۔ 19 برس کی عمر میں اس نے ہارورڈ کو چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے دوست ایلن پال کے ساتھ مل کر ایک چھوٹی کمپیوٹر کمپنی کی داغ بیل ڈالی۔ اس کا نام انہوں نے مائیکرو سافٹ رکھا۔
تاریخ میں کئی بار ایسے موقع آئے کہ جب کوئی نیا تصور پیش کیا گیا تو اس کی اہمیت اس وقت تک اجاگر نہیں ہوئی جب تک اس کا عملی استعمال نہ کیا گیا۔ کبھی کبھار کوئی ایسا تصور پیش کر دیتا ہے جس سے دنیا میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے۔
کیلی فورنیا کے ایک گیراج میں بھی ایک حوصلہ مند کمپنی کا ظہور ہونے والا تھا۔ اسٹیو جابز نے سوچا کہ وہ اپنے دوست وزنک کا تیار کردہ جدید کمپیوٹر بیچ سکتا ہے۔ اس کی میموری الٹائر کے مقابلے میں 16 گنا زیادہ تھی۔ اب مرحلہ تھا کمپیوٹر کو نام دینے کا۔ وزنک ایگزیکیوٹیک کا نام سوچ رہا تھا یا پرسنل کمپیوٹرز انک۔ جابز نے یہ دونوں نام رد کر دیئے۔ اس کا خیال تھا نام ذرا ہٹ کر ہونا چاہئے۔ جیسے ایپل اور کمپیوٹر۔ دونوں لفظ ایک دوسرے سے بالکل جدا تھے تاہم سننے میں اچھے لگتے تھے۔ اچھا نام اپنی چیز بیچنے کی گارنٹی نہیں دیتا ہے۔
وہ اپنے کمپیوٹر میں ایسکی کی بورڈ اور ایم او ایس 6502 کی چپ استعمال کر رہے تھے۔ کی بورڈ اور مانیٹر کے اضافے کے باوجود ایپل اول بری طرح ناکام ہو گیا۔ صرف 200 کمپیوٹر ہی بیچے جا سکے۔ وہ اور اس کا شراکت دار سمجھ رہے تھے کہ وہ صرف کامیاب ہی ہوں گے انہوں نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ ان کا منصوبہ ناکامی سے دو چار ہوگا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ دنیا کو چونکا دیں گے۔ کم قیمت پرسنل کمپیوٹر بنانے میں وہ دنیا سے بہت آگے تھے۔ وزنک کا کام پروسیسر کو تیز رفتار بنانا تھا جبکہ جابز سمجھتا تھا کہ کمپیوٹر کا اور زیادہ پرکشش بنانا ہوگا تاکہ نہ صرف کمپیوٹر کے شوقین بلکہ عام لوگ بھی اسے خرید سکیں۔
اس نے سوچنا شروع کر دیا۔ اس کے ذہن میں ایک ایسی مشین کا خاکہ تھا جس میں ہر چیز ایک جگہ ہو اور استعمال میں اس قدر آسان ہو کہ دنیا میں انقلاب برپا کر دے۔ اس نے اس مشین کو ایپل دوئم کا نام دیا۔ اپنے دور کا یہ حسین ترین کمپیوٹر تھا۔ اسٹیو جابز نے بالکل نیا ڈیزائن متعارف کروا دیا تھا۔ ایپل دوئم کے تعارف کے ساتھ ہی کمپیوٹر کا کاروبار ہمیشہ کے لئے بدل گیا۔ جون 1977 میں ایپل دوئم کا اجراء کیا گیا۔ اس سے پہلے لوگوں نے ایسا کمپیوٹر کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کا آسان استعمال عوام کو فوراً ہی بھا گیا۔ ایک سال کے اندر ہی اس کی فروخت 8 ارب یو ایس ڈالر تک پہنچ گئی۔ انہوں نے کمپیوٹر متعارف کروانے کے ساتھ ہی فروخت شروع کردی تھی۔ یہ کمپیوٹر کی دنیا میں اپنے وقت سے بہت آگے تھے۔ یہ رنگین تھا اور اس میں گرافکس تھے۔ یہ ایپل کی پہلی کامیاب پروڈکٹ تھی۔
بل گیٹس نے جب یہ کمپیوٹر دیکھا تو اسے اپنی کمپنی کا مستقبل کافی روشن نظر آیا۔ ایپل دوئم اگرچہ عام صارفین کے لئے تھا تاہم اس کی پروگرامنگ مارکیٹ میں موجود زیادہ تر تجارتی سافٹ ویئر کے ساتھ ہم آہنگ نہ تھی۔ گیٹس جانتا تھا کہ اگر اس نے ایپل کے اس کمپیوٹر کو تجارتی پروگرام چلانے کی قابلیت عطا کردی تو یہ ایپل کی کامیابی میں سے اپنا حصہ پوری طرح وصول کرسکے گا۔ گیٹس اور اس کی ٹیم نے کئی مہینوں کی محنت کے بعد ایک سوفٹ کارڈ بنا ہی لیا جو ایپل دوئم میں لگا کر تجارتی پروگرام چلانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ سوفٹ کارڈ ایک قسم کا سرکٹ بورڈ تھا۔ تاہم مائیکرو سافٹ کو اس سوفٹ کارڈ کا فائدہ تب ہی ہو سکتا تھا جب کمپیوٹر کی صنعت کے دونوں نابغ روزگار ایک دوسرے کی مدد کرتے۔
اسٹیو جابز اور بل گیٹس ثنائی ستاروں کی طرح تھے ایک دوسرے کے گرد منڈلانے والے۔ 1970 کی دہائی ہی سے دونوں ایک دوسرے کے گرد منڈلاتے رہے۔ سوفٹ کارڈ کا تعارف کرواتے ہوئے بل گیٹس نے جابز کو بتایا کہ اس کے استعمال سے ایپل دوئم پر ورڈ پروسیسر، اسپریڈ شیٹس وغیرہ سمیت مختلف تجارتی پروگرام آسانی سے چل سکتے ہیں۔ بل گیٹس نے اسٹیو جابز کو ایک ایسی چیز کی پیش کش کردی جس سے اس کا عام گھریلو کمپیوٹر طاقتور تجارتی کمپیوٹر میں بدل سکتا تھا۔ یہ دونوں کمپنیوں کے لئے سود مند سودا تھا۔
1980 تک ایپل کے صارفین کو سوفٹ کارڈ بیچنا مائیکرو سافٹ کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ تھا اور اس کے نتیجے میں اس کی فروخت میں تین گنا اضافہ ہو چکا تھا۔ تاہم بل گیٹس اسٹیو سے آگے نکلنے کا پہلے ہی سوچ چکا تھا اور ٹیکنالوجی کی دنیا کا بے تاج بادشاہ بننے کا پہلا قدم اٹھا چکا تھا۔
کئی دہائیوں سے آئی بی ایم بزنس ٹیکنالوجی کے افق پر چھایا ہوا تھا اور اب وہ پرسنل کمپیوٹر کے بزنس میں قدم رکھنے کا سوچ رہا تھا۔ گیٹس کو اندازہ ہو چکا تھا کہ اس میدان میں آئی بی ایم سے کیا جانے والا معاہدہ بہت اہم ہو سکتا ہے۔ وہ چاہتا تھا کہ آئی بی ایم کے پرسنل کمپیوٹر پر وہ سافٹ ویئر مہیا کرنے والی اہم کمپنی ہو۔ گیٹس نے جب آئی بی ایم سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ انھیں سافٹ ویئر کے بجائے آپریٹنگ سسٹم درکار ہے۔ گیٹس سمجھ رہا تھا کہ انھیں صرف پروگرامنگ لینگویج چاہیں۔ آئی بی ایم والے جلدی میں تھے۔ اس وقت تک مائیکرو سافٹ کے پاس اپنا کوئی آپریٹنگ سسٹم موجود نہ تھا۔ اس کے باوجود بل گیٹس نے آئی بی ایم کو آپریٹنگ سسٹم مہیا کرنے کی حامی بھر لی۔ بل گیٹس کے دماغ میں تھا کہ اسے کہاں سے آپریٹنگ سافٹ ویئر مل سکتا ہے۔ گیٹس نے ایک اور چھوٹی سافٹ ویئر کمپنی سے ایک بنا بنایا آپریٹنگ سافٹ ویئر خریدا جس کا نام اس نے ایم ایس ڈوس رکھا۔ بل گیٹس نے اس کمپنی سے یہ طے کرلیا تھا کہ وہ جو چاہئے اس آپریٹنگ سسٹم کے ساتھ کر سکتا ہے اس کے لئے اس نے 50 ہزار امریکی ڈالر ادا کئے جو اس کمپنی نے خوشی خوشی لے لئے۔
آپریٹنگ سسٹم سے لیس ہونے کے بعد بل گیٹس جب آئی بی ایم پہنچا تو اس کی ایک ہی شرط تھی۔ وہ اسے کسی دوسرے کو بھی بیچ سکتا تھا۔ گیٹس کیونکہ سافٹ ویئر بناتا تھا لہٰذا اس کے دماغ میں ایک بڑا زبردست خیال چل رہا تھا کہ اس کے بنائے ہوئے سافٹ ویئر کسی بھی مشین پر چل سکیں ۔ آئی بی ایم یہ سودا کرتے ہوئے چوک گیا اور یوں گیٹس نے آئی بی ایم کو مائیکرو سافٹ ڈوس کا نان ایکسکلوسیو لائسنس ٹکا دیا۔ اب مائیکروسافٹ کے پاس دنیا میں کسی بھی کمپیوٹر کمپنی کو اپنا آپریٹنگ سسٹم کو بیچنے کا حق حاصل تھا۔ شاید یہ معاہدہ تاریخ میں سب سے زیادہ کامیاب معاہدے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
ڈوس سے فروخت ہونے والی آمدنی نے مائیکرو سافٹ کو کافی امیر بنا دیا تھا اور روپے کا مطلب ہوتا ہے طاقت اور جب کسی کے پاس بے پناہ طاقت آ جائے تو وہ اپنی مرضی سے کاروبار چلا سکتا ہے۔
اسٹیو جابز دور ہی سے گیٹس کو کمپیوٹر کے بزنس میں تسلط جماتا دیکھ رہا تھا۔ آئی بی ایم کے پرسنل کمپیوٹر کا ایپل نے خوب مذاق اڑایا۔ ان کے خیال میں یہ بڑا، بھاری اور بھدا ڈبہ تھا۔ تاہم وہ سمجھ گئے تھے کہ اب آئی بی ایم کے آنے کے بعد مارکیٹ کا بڑا حصہ اس کے پاس چلا جائے گا۔ جابز جانتا تھا کہ اگر ایپل کو مارکیٹ میں رہنا ہے تو اسے کچھ بڑا سوچنا ہوگا۔ جیف راسکن نے انھیں زیروکس پارک سینٹر جانے کی تجویز دی۔ اس کا خیال تھا کہ ان کے پاس کوئی ایسی چیز موجود تھی جسے انھیں دیکھنا چاہئے تھا۔ اس چیز کو انہوں نے سات پردوں میں چھپا رکھا تھا۔ اسٹیو نے انھیں پیش کش کی کہ اگر وہ اپنی کمپنی کا مکمل دورہ کروائیں تو یہ ان کے دس لاکھ ڈالر اپنی کمپنی میں بطور سرمایہ لگا لے گا۔ اسٹیو جابز کو معلوم نہیں تھا کہ وہ جو چیز دیکھنے جا رہا تھا وہ اس کی زندگی، کمپنی اور دنیا کو بدل کر رکھ دے گی۔
انہوں نے وہاں دیکھا کہ کمپیوٹر کی اسکرین پر ایک ساتھ دو پروگرام چل رہے ہیں۔ ایک پروگرام ایک ونڈو میں اور دوسرا دوسری ونڈو میں۔ وہ اس کی اہمیت کو پوری طرح نہیں سمجھے تھے۔ بس انھیں یہ دیکھنے میں بہت اچھا لگ رہا تھا۔ کسی نے کہا کہ آپ نے اگر ایک مرتبہ یہ استعمال کرلیا تو آپ کو اس کے علاوہ کسی اور چیز میں مزہ نہیں آئے گا۔ زیروکس کے لئے یہ ایک تجربہ تھا جبکہ اسٹیو کی دور رس نگاہیں کچھ اور دیکھ رہی تھیں۔ زیروکس ایک بہت بڑی کمپنی تھی اسے اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ اس ونڈو پروگرام کو پرسنل کمپیوٹر کے لئے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جابز نے گرافیکل یوزر انٹرفیس (جی یو آئی) کا خیال زیروکس سے مستعار لیا۔ اس نے ایک ٹیم بنائی جس کا کام جی یو آئی کو نئے میکنٹوش کہلانے والے کمپیوٹر پر چلانا تھا۔ جابز نے اس ٹیم کے لئے صرف ایک ہی شرط رکھی کہ اس کا ہر رکن اتنا ہی سرشار ہو کر کام کرے گا جتنا کہ جابز۔
اسٹیو کے ذہن میں کچھ خاص تھا۔ اسے جی یو آئی بنانے کی جلدی تھی۔ اس کی ٹیم زبردست دباؤ میں تھی۔ تاہم اس سے جو کوئی بھی ملا ہے وہ اس بات کی گواہی دے گا کہ وہ روئے زمین کی ایک زبردست کرشماتی شخصیت تھی۔ میکنٹوش کو بنانے میں اسٹیو کی تمام تر توانائیاں لگ رہی تھیں اس وقت اسے احساس ہوا کہ کمپنی کو ایک ایسے انسان کی ضرورت ہے جو ایپل کو چلائے ایک ایسا شخص جو بہت اچھا منتظم اور فروخت کرنے والا ہو۔
اسٹیو ہر شعبے کو دیکھ رہا تھا لیکن وہ کوئی بہت اچھا منتظم نہیں تھا۔1983 میں پیپسی کے سابقہ ملازم جان اسکلی نے ایپل میں بطور نئے سی ای او کے قدم رنجا فرمائے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب جابز میکنٹوش کو مکمل کرنے کے قریب تھا۔ جب سافٹ ویئر کی باری آئی تو ایپل کی پسند ایک بار پھر گیٹس ہی تھا۔ جابز چاہتا تھا کہ گیٹس اس کی تازہ ترین ایجاد میں اپنا حصہ ڈالا۔ جابز سمجھ رہا تھا کہ اس کی یہ نئی ایجاد ایپل کا مستقبل ہوگی۔ اس نے اس کا سلوگن بھی سوچ لیا تھا۔"ٹیکسٹ ماضی کی بات ہے۔ مستقبل کے لئے خوش آمدید"۔ اسٹیو اپنے نئے جی یو آئی کے لئے بہت پر امید تھا کیونکہ یہ واقعی میں بہت اچھا اور زبردست تھا۔ گیٹس کا بھی یہی خیال تھا اور وہ چاہتا تھا کہ مائیکروسافٹ اس کے لئے سافٹ ویئر بنا کر ایپل کا حصہ بنے۔ تاہم گیٹس اس سے بھی آگے کی سوچ رہا تھا۔ جب گیٹس نے پہلی مرتبہ جی یو آئی دیکھا ہوگا تو اس کا دل بھی للچایا ہوگا کہ کسی طرح وہ مائیکروسافٹ میں ایسا جی یو آئی بنائے۔ کیونکہ یہی وہ طریقہ تھا جو مستقبل کے کمپیوٹرز میں استعمال ہونا تھا۔ ونڈو اسکرین پر آگے پیچھے کی جا سکتی تھی۔ ایک ساتھ دو ونڈو کھولی جا سکتی تھیں۔ بل گیٹس نے طے کرلیا تھا کہ وہ مائیکروسافٹ میں جی یو آئی خود سے بنائے گا جس کا نام اس نے "انٹرفیس مینیجر" رکھا۔ لیکن 1983 میں ایک مختلف نام ذہن میں آیا "ونڈوز"۔
جب میکنٹوش کی رونمائی میں ایک ہفتہ رہ گیا تو اسٹیو کو ونڈوز کی خبر ملی۔ میکنٹوش کی تیاری میں اسٹیو نے اپنے تین برس صرف کر دئیے تھے۔ جس انسان کو وہ اپنا دوست سمجھ رہا تھا اس نے اس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا تھا۔ جابز بہت دکھی تھا اس نے گیٹس پر اعتماد کیا۔ اس نے گیٹس سے جو بھی معاہدہ کیا وہ اس کی خوشی کے ساتھ کیا اور اب گیٹس نے اس کی پیٹ میں چھرا گھونپ دیا۔ جابز اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
بل گیٹس ایک ہوشیار کاروباری آدمی تھی۔ اس نے موقع بھانپ لیا تھا وہ ایک عظیم کمپنی بنانا چاہتا تھا۔ ایک مضبوط کمپنی۔ اس کے لئے وہ کچھ بھی کر سکتا تھا۔ ونڈوز کی تیاری میں اب بھی دو برس باقی تھے تاہم گیٹس جانتا تھا کہ اس کو جابز کے اعلان سے پہلے یہ کام کرنا ہے۔ اس طرح کے کاموں میں وقت کی اصل اہمیت ہوتی ہے۔ اسٹیو کا خواب گیٹس نے چرا لیا تھا۔ تاہم گیٹس کے برخلاف اس کے پاس تیار پروڈکٹ موجود تھی جو قابل فروخت تھی۔ اور پھر جابز کو چیزوں کو بیچنا آتا تھا۔
جب میکنٹوش کی رونمائی ہوئی۔ تو کمپیوٹر نے خود خوش آمدید کہا۔ میک اپنے زمانے کی حسینہ پسینہ تھی۔ شاید دینا کا پہلا حسین ترین کمپیوٹر۔ اس کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے وہ مسکرا رہی ہو۔ اس کو چلانا بہت زیادہ آسان تھا۔ اسٹیو کا دل جھوم رہا تھا۔ میکنٹوش کی رونمائی شاندار تھی۔ تاہم کمپیوٹر بہت ہی سست تھا اور اس کی فروخت زیادہ نہیں ہورہی تھی۔ اس کی فروخت میں تیزی سے کمی آ رہی تھی ان کے پاس ایک ماہ میں 80 ہزار میک بنانے کی سہولت تھی جبکہ وہ بک صرف 5 سو رہے تھے۔ ایپل کے حصص کی قیمت آدھی ہو گئی تھی۔ یہ کمپنی کے لئے ایک بھیانک خواب بن گیا تھا۔
کمپنی کے بورڈ نے اس وقت یہ تلخ فیصلہ لیا کہ اسٹیو کو اس کے مقام سے ہٹا دیا جائے۔ اسٹیو کے لئے یہ بہت تکلیف دہ بات تھی۔ اس نے یہ بورڈ تشکیل دیا تھا۔ بورڈ سمجھ رہا تھا کہ اسٹیو پیسے کا بیدردی سے استعمال کر رہا تھا لہٰذا کمپنی کی صحت کے لئے اسے ہٹانا ناگزیر تھا۔ بالآخر اسے اس کمپنی سے ہٹا دیا گیا جس کی بنیاد اس نے خود رکھی تھی۔ وہ آدمی جسے کمپنی کا ان داتا سمجھا جاتا تھا اسے کھڈے لائن لگا دیا گیا تھا۔
اس کا دشمن بل گیٹس مائیکرو سافٹ کو عظیم کمپنی میں تبدیل کرنے میں جتا ہوا تھا۔ اس وقت تک ایم ایس ڈوس کروڑوں کمپیوٹرز پر بطور آپریٹنگ سسٹم کام کر رہا تھا۔ 20 نومبر 1985 کو بل گیٹس کی مائیکرو سافٹ نے دنیا کو ونڈوز سے متعارف کروایا۔ بل گیٹس کو احساس ہو گیا تھا کہ کمپیوٹرز بنانے والے کئی ہیں تاہم ان کے لئے ایک جیسا سافٹ ویئر کسی نہ کسی کو لکھنا ہوگا۔ ایک معیاری آپریٹنگ سسٹم کی بہت اشد ضرورت ہے جو ہر طرح کے کمپیوٹرز پر چلایا جا سکے۔
ونڈوز نے کمپیوٹر کے بزنس میں طوفانی رفتار سے اپنی اجارہ داری قائم کرنی شروع کردی۔ 1980 کی دہائی کے خاتمے تک دنیا کے 80 فیصد کمپیوٹرز مائیکرو سافٹ کا آپریٹنگ سسٹم استعمال کر رہے تھے۔ بل گیٹس دنیا کا نوجوان ترین ارب پتی بن چکا تھا۔ مائیکرو سافٹ نے اپنے آپریٹنگ سافٹ ویئر کے ساتھ اضافی پروگرام بھی دینا شروع کر دیئے۔ آج کل تو ہم جب کمپیوٹر خریدتے ہیں تو ہمارے کمپیوٹرز میں پہلے ہی سے ورڈ پروسیسر ، اسپریڈ شیٹس وغیرہ موجود ہوتی ہیں۔ بل گیٹس نے وہ تمام سافٹ ویئر جو کسی جدید کمپیوٹر میں ہونے چاہئے تھے ایک ساتھ اس طرح جمع کردئیے کہ اس سے مائیکرو سافٹ کی اجارہ داری قائم ہو گئی۔
1990 کی دہائی میں مائیکرو سافٹ کی یہ اجارہ دارنا چال اس کو مہنگی پڑنی شروع ہوگئی۔ اس کے حریفوں نے اس پر اجارہ داری قائم کرنے کا الزام لگانا شروع کر دیا۔ آپریٹنگ سافٹ ویئر کے ساتھ دوسرے پروگرام پہلے سے انسٹال کرکے دینے کی وجہ سے محکمہ انصاف کے پاس کافی شکایتیں جمع ہو گئیں کہ مائیکرو سافٹ کے تجارتی عمل ناجائز ہیں۔ اس کے اس طرز عمل سے مارکیٹ میں نئی جدت لانے کی حوصلہ شکنی ہو رہی ہے۔ یہ دوسرے لوگوں کے سافٹ ویئر کے بزنس کو کچل رہی ہے۔
ادھر بل گیٹس قانونی معاملات میں الجھا ہوا تھا ادھر ایپل کی حالت بھی کچھ اچھی نہ تھی۔ جابز کے بغیر ایپل میں کوئی نئی جدت نہیں آرہی تھی۔ وہ پرانی مصنوعات کو ہی نچوڑ رہے تھے۔ ان کے پاس کوئی اچھا نیا آپریٹنگ سسٹم بھی نہیں تھا۔ کمپیوٹر کی دنیا میں ونڈوز کے بڑھتے ہوئے حصے نے ایپل کا حصہ 4 فیصد تک محدود کر دیا تھا۔ 1996 میں ایپل کا خسارہ ایک ارب ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔ ایپل حالات سے بری طرح لڑ رہی تھی۔ ایک کے بعد ایک کئی سی ای اوز کو بدلا گیا۔ حالت یہ ہوگئی تھی کہ ایک یا دوماہ کے اندر اندر ایپل دیوالیہ ہو جاتی۔ ایپل بس ختم ہونے کو تھی۔ 12 برس تک اسٹیو کو کمپنی سے زبردستی باہر نکالنے کے بعد بورڈ نے اسٹیو سے درخواست کی کہ وہ واپس آ جائے۔ تاہم اس سے پہلے کہ وہ ایپل کو راہ راست پر لاتا۔ جابز جانتا تھا کہ اسے جلد سرمائے کی ضرورت ہوگی۔ اسے حاصل کرنے کے لئے اسٹیو نے جس سے مدد مانگی وہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔
اسٹیو نے گیٹس کو احساس دلایا کہ اگر وہ ایپل کا سفینہ ڈوبنے سے بچانے میں مدد کرے تو یہ خود اس کے لئے فائدہ مند ہوگا۔ کھیل کے اس لمحے میں گیٹس بھی نہیں چاہتا تھا کہ ایپل کھیل سے باہر ہو جائے۔ کیونکہ کھیل میں کمزور کھلاڑی کی موجودگی میں جیتنا آسان ہوتا ہے۔ حریف کے نہ ہونے سے بہتر کمزور حریف کا موجود ہونا ہے۔ ایسے میں لوگ اس پر یہ الزام نہیں لگا سکتے کہ پوری مارکیٹ پر اسی کا قبضہ ہے۔
جابز نے اپنی کمپنی کے لوگوں کو بتایا کہ ایپل جس نظام میں کام کر رہی ہے اسے دوبارہ نفع بخش بننے کے لئے اس نظام کے دوسرے شراکت داروں سے مدد درکار ہے۔ جب انھیں معلوم ہوا کہ ان کی مدد گیٹس کرے گا تو کمپنی کے لوگوں نے طنز کے تیر چلائے۔ گیٹس کی شہرت اجارہ دار اور لڑنے بھڑنے والی شخص کی تھی۔ پوری کمپنی ونڈوز، گیٹس اور پی سیز سے نفرت کرتی تھی۔ ان تمام باتوں کے باوجود گیٹس نے ایپل میں 15 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ کمپنی کی سانس بحال ہوتے ہی جابز نے ذرا بھی دیر نہیں لگائی۔
اسٹیو نے پورا کنٹرول سنبھال لیا۔ اس نے اس بات کو یقینی بنایا کہ ایپل کی بنی ہوئی مصنوعات حد درجہ خوبصورت ہوں۔ 2001 میں اسٹیو نے کمپیوٹرز کی دنیا سے باہر قدم رکھا۔ اس زمانے میں ایم پی 3 پلیئر موجود تھے۔ کسی کو بھی جیب میں رکھے ہزاروں گانوں کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن اسٹیو نے کہا "میں کچھ ایسی چیز بناؤں گا کہ لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوگا کہ انھیں وہ چیز چاہئے لیکن جب وہ ایک بار اسے دیکھ لیں گے تو بے اختیار کہہ اٹھیں گے کہ ہمیں بھی یہی چاہئے۔" یوں آئی پوڈ کا جنم ہوا۔ لیکن اسی پر بس نہیں ہوا۔ اسٹیو نے اس سے بھی زیادہ سوچا ہوا تھا۔ لہٰذا اس نے آئی فون متعارف کروایا۔
2007 آئی فون کی خریداری کے لوگ قطار میں 100 گھنٹے تک کھڑے رہے۔ اسی کے ساتھ ایپل نے دنیا کی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنی بننے کے راستے پر قدم رکھ دیا۔ آئی فون اس تصور کے ساتھ پیش کیا کہ آپ اپنے ہاتھ میں کمپیوٹر کو لے کر گھوم سکیں۔
اگر ہم سے کہا جائے کہ اس دور میں کسی ایک شخص کا نام لو جس نے ٹیکنالوجی پر اپنا اثر و رسوخ ایسا ڈالا کہ سب اس کی پیروی میں لگ گائے تو وہ نام اسٹیو جابز کا ہوگا۔
اسٹیو جابز کی شخصیت کا ڈنکا بجنے لگا تھا جبکہ بل گیٹس کی شہرت کچھ خاص اچھی نہیں تھی۔ بل گیٹس بھی چاہتا تھا کہ لوگ اس سے پیار کریں۔ تاریخ میں اس کا نام اچھے لفظوں سے لکھا جائے۔ اپنی میراث کا قرض چکانے کے لئے، دنیا کے امیر ترین آدمی یعنی بل گیٹس نے خدمت خلق شروع کردی۔ اس نے خدمت خلق صرف اس لئے نہیں شروع کی تھی کہ وہ دنیا کو امن و سکون کا گہوارہ دیکھنا چاہتا تھا بلکہ وہ اپنی شخصیت کا تاثر بہتر کرنا چاہتا تھا۔ وہ اپنے ماضی کی خود غرضانہ شہرت سے نجات چاہتا تھا۔
بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن دنیا کی سب سے بڑی پرائیویٹ فاؤنڈیشن بن چکی ہے۔ گیٹس اب بہت زیادہ رحم دل اور سیانا ہو چکا ہے وہ تمام انسانوں کو برابر سمجھتا ہے اور چاہتا ہے کہ جب وہ اس دنیا سے رخصت ہو تو یہ دنیا امن کا گہوارہ بن چکی ہو۔
کافی عرصے تک اسٹیو جابز خبروں سے باہر رہا۔ اسے لبلبے کا سرطان تشخیص ہوا تھا۔ 2011 میں اپنی صحت کے مسائل کی وجہ سے جابز نے ایپل سے بطور سی ای او استعفا دے دیا تھا۔ اسے معلوم تھا یا نہیں کہ وہ مر رہا ہے تاہم اتنا اسے ضرور معلوم تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے۔ شاید وہ جانتا تھا کہ لوگ اسے مرنے کے بعد یاد رکھیں گے۔ اس کی موت کا سوگ پوری دنیا میں اس کے چاہنے والوں نے منایا۔
اس کے موت کے اگلے برس ایپل سیارہ زمین پر سب سے زیادہ بیش قیمت کمپنی بن گئی۔
اسٹیو جابز اور بل گیٹس کا تعلق بہت ہی پیچیدہ تھا۔ ایک طرح سے وہ ایک دوسرے کے ساتھی تھے۔ پورے راستے وہ ایک دوسرے کے ساتھ رہے۔ کبھی دشمن بن کر تو کبھی دوست بن کر۔ وہ ایک دوسرے کے لئے بغض رکھتے تھے۔ تاہم آخر میں انھوں نے صلح کر لی تھی آخر کو دونوں اس صنعت کے بانیان میں سے تھے۔
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #ٹیکنالوجی #کمپیوٹر #مائیکروسافٹ #ایپل #اسٹیو_جابز #بل_گیٹس #امریکن_جینئس #امریکی_عبقری
#jahanescience
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں