Prevention of Copy Paste


  • تازہ اشاعتیں

    بدھ، 11 ستمبر، 2019

    آئن سٹائن کی کہانی



    مؤلف: سید شہاب الدین دسنوی 

    کچھ اس کتاب کے بارے میں 


    پروٹسٹنٹ فرقے کے عیسائیوں کی عبادت گاہوں میں مجسمے اور تصویر نہیں ہو تی ہیں ۔ لیکن امریکا کے شہر ریور سائڈ میں ان کا ایک ایسا بھی گر جا ہے جس کی مرمرین دیواروں پر چودہ شبیہیں کندہ ہیں ۔ ان کا قصہ یہ ہے کہ جب اس گرجاکی تعمیر کا منصوبہ ڈاکٹر ہری فوسٹ ڈیم (HARRY FOSTDIEN) بنانے لگے تو انھیں خیال آیا کہ جہاں روحانی پیشواؤں اور بزرگوں نے انسانوں کی روح کی تربیت کی و ہیں دنیا میں جو چوٹی کے مفکر اور فلسفی گزرے ہیں، انھوں نے بھی اپنی فکرو فراست اور محنت شاقہ سے انسانیت کی عظیم خدمات انجام دی ہیں، ان کو یاد رکھنا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنا بھی تو ہمارا فرض ہوتا ہے ۔ چنانچہ ڈاکٹر فوسٹ ڈیم نے فیصلہ کیا کہ ۳۷۰ ق. م ہے ۱۹٤۹ء تک جتنے سائنسدان گذرے ہیں ان میں سے چودہ کا انتخاب کرکے ان کی شبیہیں گرجے کی دیواروں پر کندہ کر دی جائیں۔ لیکن وہ چودہ سائنس کون ہوں؟ اس نے ملک کے مشہور ہمعصر سائنسدانوں کو خطوط لکھ کر ان سے نا م طلب کیے۔ حب سب جوا بات آ گئے تو معلوم ہو اکہ ارشمیدس، اقلیدس ، گلیلیو ،سب کی فہرست میں تھے ۔ ان کے علاوہ ایک اور نامو جو مشترک تھا وہ البرٹ آئن سٹائن  کا تھا۔ جب شبیہیں تیار ہو چکیں تو ایک اور دلچسپ بات یہ معلوم ہوئی کہ ان سب میں سے اب تک صرف ایک آدمی بقید حیات تھا اور وہ تھا البرٹ آئین سٹائن! 

    درسی ضرورت کے لحاظ سے اردو میں سائنس کی کچھ کتابیں شائع ہوتی رہتی ہیں لیکن عام فہم سائنس (پاپولر سائنس) کی کتابوں کا اب بھی فقدان ہے میری کتاب "کیمیا کی کہانی ۱۹۷۸ میں ترقی اردو بورڈ (دلی) کی طرف سے شائع ہوئی تھی ۔ اس میں چند معروف کیمیائی عناصر کی دریافت کی کہانی بیان کی گئی کی ۔ اس کی زبان بھاری بھرکم اصطلاحات سے خالی تھی اور کوشش کی گئی تھی کہ عام پڑھا لکھا آدمی اس سے مستفید ہو سکے ۔ کتاب مقبول ہوئی ، بڑے حوصلہ افزا تبصرے نکلے جس سے میرا شوق اور بڑھا اور اب میں عالمی شہرت کے سائنسدان البرٹ آئین سٹائن کی کہانی اور اس کے کارناموں کی داستان پیش کر رہا ہوں۔

    آئین سٹائن کے نظریہ اضافیت کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کے سمجھنے والے دنیا میں صرف بارہ آدمی تھے لیکن بات ایسی نہیں تھی ۔ اس کی بنیادی باتیں اور حیرت انگیز نتائج عام انسان کی فہم سے بالا تر نہیں ہیں ۔ اب جب کہ اسکولوں میں طبیعیات اور ریاضی کی تعلیم لازمی ہو چکی ہے ، ایٹم ، الیکٹرون، تجاذب و غیره اصطلاحات اجنبی نہیں رہی ہیں، اس کتاب کے مطالعے میں بھی کوئی دقت نہیں ہوگی ۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جو پڑھا جائے ، وہ صبر، توجہ  اور غور سے پڑھا جائے، تاکہ سلسلہ ذہن میں موجود رہے۔ جہاں کہیں مشکل تصورات سامنے آ گئے ہیں، انھیں مثالوں کی مدد سے عام فہم بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ 

    اس کتاب کے پہلے حصے میں آئن سٹائن کے حالات زندگی اور دوسرے حصے میں اس کے کارناموں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ آئن سٹائن کا نظریہ اضافیت ادق اور خشک ضرور ہے، مگر جس انداز سے یہ کتاب لکھی گئی ہے ، اس سے وہ خشکی بڑی حد تک دور ہو جائیگی اور قاری ان باتوں سے آشنا ہو جائیگا جو اس عظیم سائنسدان اور مفکر کی عالمگیر شہرت کا سبب بنیں ۔ مگر آئیے "نظریہ اضافیت"، "خصوصی اضافیت"، وحدانی میدان جیسی اصطلاحات اور ایٹم کی بے پناہ قوت کے ذکر سے پہلے اس آئن سٹائن  کا حال معلوم کریں جو انسان بھی تھا!

    جب یہ کتاب مرتب ہو چکی تو بے اختیار دل چاہا کہ اس کا انتساب عہد حاضر کے عالمی شہرت اور نوبل یافتہ سائنسدان پروفیسر عبدالسلام کے نام کیا جائے ۔ میری خوش قسمتی سے پروفیسر موصوف جنوری ۱۹۸۷ء کو دارالمصنفین ، اعظم گڑھ تشریف لائے۔ میں نے کتاب کا مسودہ ان کی خدمت میں بھیج دیا اور دو باتوں کی اجازت طلب کی: ایک تو ان کے نام انتساب کی اور دوسری ان کی وہ تصویر شامل کرنے کی جو انھوں نے دستخط کر کے مجھے پانچ سال قبل عنایت فرمائی تھی۔ پروفیسر موصوف نے مسودہ دیکھ کر دونوں باتوں کی اجازت دے دی ۔ اس کرم فرمائی کے لیے الفاظ شکریہ ادا کر نے سے قاصر ہیں۔ میں پٹنہ یونیورسٹی کے شعبہ طبیعات کے سابق صدر پروفیسر احسان جلیل کا بے حد ممنون ہوں کہ انھوں نے اس کتاب کی ترتیب میں مجھے مفید مشورے دے کر میری رہنمائی فرمائی۔

    نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔مزید اس کتاب کو یہاں سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔

    #جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #انجمن_ترقی_اردو_ہند #سید_شہاب_الدین_دسنوی #سوانح_حیات #آئنسٹائن #آئن_سٹائن  #اضافیت #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس 
    #jahanescience


    • بلاگر میں تبصرے
    • فیس بک پر تبصرے

    0 comments:

    Item Reviewed: آئن سٹائن کی کہانی Rating: 5 Reviewed By: Zuhair Abbas
    Scroll to Top