مصنف:کوانٹین رینالڈ
مترجم: احسن صدیقی
عوام میں سائینس کو مقبول بنانے کی خدمات کے اعتراف میں نامور فلسفی برٹرنیڈرسل کو حال ہی میں یونیسکو کی طرف سے مالنگا پرائز دیا گیا ہے ۔ اس موقع پر اپنی تقریر میں انہوں نے ایک بہت ہی اہم بات کی طرف اشارہ کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ عام طور پر اگر کوئی شخص تھوڑا سا لٹریچر پڑھ لے تو اسے تعلیم یافتہ ، کہا جاتا ہے۔ چاہے سائینس کے اہم نظریات اور ایجادوں کے بارے میں معمولی شد بد بھی نہ رکھتا ہو۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ کسی قوم کا کلچر صرف اس کی تاریخ ، ادب یا موسیقی اور رقاصی کی روایات کا مظہر ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ علوم عقلیہ یا سائنس کے ارتقا اور تجربات کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
عقل کی روشنی کے اس زمانے میں بھی ہمیں کتنے ہی لوگ ایسے ملیں گے جو ادب یا تاریخ کے ایک محدود گوشے کا علم تو رکھتے ہیں مگر بجلی ، ٹیلیفون ، ٹیلی ویژن یا ہوائی جہاز جیسی معمولی ایجادوں کے بنیادی اصولوں سے بھی نابلد ہیں۔ لطیفہ یہ ہے کہ پھر بھی انہیں ان پڑھ نہیں کہا جا سکتا۔ یہاں مجھے ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔ ہمارے کالج کے کچھ تعلیم یافتہ لیکچرار این سی سی کی ٹریننگ کے سلسلے میں انٹرویو کے لئے جا رہے تھے ۔ بعض ان میں بوکھلائے ہوئے تھے۔ ایک صاحب کو تو جٹ اور عام طیارے کا فرق ہی معلوم نہ تھا اور وہ اپنے ساتھیوں سے پوچھ رہے تھے کہ ایک اور لیکچرار بھی آ نکلے اور بڑے اعتماد سے فرمانے لگے "ارے میاں جیٹ بس ہیلی کو پٹر کی طرح کا ہوتا ہے ۔ آج جب کہ دنیا فضائے بسیط کے Space Rockets بنانے اور چاند تک پہنچنے کی جدوجہد کر رہی ہے سائنس کے معمولی اصولوں سے ہماری نا واقفیت ہماری ذہنی پسماندگی اور غفلت پر دلالت کرتی ہے۔
اردو میں اگر سائنس کی کتابیں مقبول نہیں تو اس کا واقعی سبب یہ ہے کہ ہمارے مصنفوں اور ناشروں نے اس وقت توجہ نہیں دی ورنہ ہمارے ملک کے باشندے بھی سائنس کی تحقیقات حاضرہ سے واقف ہونے کے لئے اتنا ہی شوق اور تجسس رکھتے ہیں جتنا کہ مغربی ممالک کے رہنے والوں میں پایا جاتا ہے۔
زیر نظر کتاب WRIGHT BROTHER کی اردو شکل ہے جسے جناب احسن صدیقی نے سلیس اور شگفتہ زبان میں پیش کیا ہے۔ میں نے ترجمے کا اصل کتاب سے مقابلہ کیا ہے اور پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ صدیقی صاحب اپنی کوشش میں پوری طرح کامیاب رہے ہیں۔
مناسب ہوگا کہ چند الفاظ اصل کتاب کے بارے میں بھی کہہ دوں۔ ہمارا عہد فضائے بسیط کے راکٹوں کا دور ہے۔ سائنس نے ترقی کی بہت سی منزلیں طے کرلی ہیں اور غالباً اس صدی کا قا فلہ چاند کی نورانی سرزمین پر جا کر ہی دم لے گا۔ اب ہوائی جہاز کی حیثیت دوسرے درجے کی ہو گئی ہے۔ ذیلی سیاروں (اسپوٹنک) یا راکٹوں کی اہمیت اور ماہئیت جاننے کے لئے پہلا سبق "ہوائی جہاز" کی کہانی ہے۔
کوئی ایجاد اتنی دلچسپ نہیں کی جتنی اس ایجاد کی کہانی - ہوائی جہاز کی یہ دلچسپ اور معلومات افزا کہانی اس کتاب میں آپ کو سادہ اور سہل انداز میں سنائی گئی ہے۔ اس میں واقعات کی ترتیب اور پیش کش ایسے اچھے انداز میں کی گئی ہے کہ بچے اور بڑے دونوں اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
نپولین کا کہنا تھا کہ بچے کا مستقبل ماں کی تربیت کا کرشمہ ہوتا ہے۔ یہ کتاب ایک طرح اس قول کی تفسیر و تشریح بھی ہے۔ اس سے یہ راز کھلتا ہے کہ ماں بچے کی ذہنی رسائی میں کتنا اہم رول ادا کر سکتی ہے میں ایک اچھی کتاب سے اردو میں اضافہ کرنے پر صدیقی صاحب کو مبارک باد دیتا ہوں ۔
دلی یونیورسٹی
رضا اللہ انصاری۔ ایم۔ ایس۔سی
18، اپریل 1958 لیکچرار۔
نوٹ: یہ کتاب ریختہ پر دستیاب ہے۔مزید اس کتاب کو یہاں سے پڑھا اور ڈاؤنلوڈ بھی کیا جاسکتا ہے۔
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #احالی_پبلشنگ_ہاؤس_دلی #احسن_صدیقی #سوانح_حیات #ہوائی_جہاز_کی_کہانی #ہوائی_جہاز #طیارے #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #اردو_میں_سائنس
#jahanescience
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں