کانسٹنٹن زوالکوسکی کی پیدائش ماسکو کے قریب ایک گاؤں میں ہوئی تھی۔ دس برس کی عمر میں وہ شدید طور پر بیمار ہوا۔ بیماری سے صحت یاب ہونے پر پتہ چلا کہ وہ قوت سماعت سے محروم ہو چکا ہے۔ اب کانسٹنٹن کے لئے ان کے اسکول میں تعلیم جاری رکھنا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ اسے اسکول سے اٹھا لیا گیا۔ اور اس کی ماں نے گھر پر اس کی تعلیم جاری رکھی۔
اس چھوٹے ، کم عمر اور تنہائی پسند لڑکے کو اپنے ہم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ کھیل کود میں حصہ لینے کا کبھی موقع نہیں ملا۔ وہ ایسی کتابوں کے مطالعہ میں اپنے دن گذار رہا تھا جو گاؤں کے لوگوں کی ملکیت تھیں۔ یہ کتابیں اس کے پسندیدہ ترین موضوع سے متعلق تھیں اور ان میں ریاضی علم طبیعیات اور علم کیمیا شامل تھے ۔ کانسٹنٹن تنہا مطالعہ کرتا رہا اور اس طرح اس نے اپنی معلومات نہایت وسیع کر لیں۔ جب یہ نو عمر لڑکا سولہ برس کی عمر کو پہنچا توا س کے باپ نے محسوس کیا کہ اگر اس نے لڑکے کو مزید علم حاصل کرنا ہے تو اسے کسی بڑے شہر جانا پڑے گا۔
زوالکوسکی کا باپ ایک غریب لکڑ ہارا تھا۔ مگر اس کے باوجود اس نے اپنے لڑکے کو تعلیم کی غرض سے ماسکو بھیج دیا۔ اس بڑے شہر میں کانسٹنٹن نے دیکھا کہ بڑی بڑی عمارتیں سائنسی کتابوں سے بھری ہوئی ہیں۔ اسے ان کتابوں کے مطالعہ کی اجازت مل گئی۔ جب بھی ممکن ہوتا اس کا باپ تھوڑی بہت رقم اسے بھیجتا رہتا۔ یہ معمولی سی رقم اس کے کھانے اور ماسکو میں ایک کمرے کے کرایہ کے لئے مشکل سے کافی ہو سکتی تھی۔ اس رقم پر گذر اوقات کرنے کے بجائے کانسٹنٹن اس کا بیشتر حصہ ایسی کیمیائی اشیا کی خریداری پر صرف کر دیتا جو اس کے تجربات کے لئے ضروری ہوتی تھیں ۔ اور جس میں اسے سب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ وہ صرف چند سینٹ کی سیاه روٹی کھا کر پورا دن گذار دیتا تھا۔ ماسکو میں تین برس کے مطالعے اور تحقیقات میں مشغول رہنے کے بعد وہ صرف ہڈیوں ک ڈھانچہ ہو کر رہ گیا تھا۔ جب اس کے باپ کو پتا چلا کہ اس کا لڑکا کتنی غربت میں اپنے دن گذار رہا ہے وہ اسے ماسکو سے واپس اپنے گھر لے آیا۔
اب کانسٹنٹن اپنے محبوب موضوعات پر لیکچر دے کر اپنی روزی آپ کمانے کے قابل ہو گیا تھا۔ اسے گاؤں کے اسکول میں ریاضی کا استاد مقرر کر دیا گیا۔
قوت سماعت سے محروم اس لڑکے نے اس بات کی کوشش شروع کردی کہ وہ ماہر طبیعات کی حیثیت سے شہرت حاصل کرے۔ اگرچہ اس نے کالج میں تعلیم حاصل نہیں کی تھی۔ مگر اس کے باوجود ایک طریقہ ایسا تھا جس کی مدد سے وہ اپنا مقصد حاصل کر سکتا تھا۔ اگر زوالکوسکی کوئی اہم ایجاد کرنے میں کامیاب ہو جائے تو حقیقی سائنس دان کی حیثیت سے اسے قبول کر جائیگا۔
زوالکوسکی کا خیال تھا کہ اس نے گیسوں کے متعلق بہت سی نئی باتیں دریافت کر لی ہیں۔ جہاں تک ممکن ہو سکتا تھا۔ وہ زیادہ سے زیادہ وقت گیسوں پر تجربات کرنے میں صرف کرتا تھا۔ اور ایسے کلیات دریافت کرنے کی کوششوں میں مشغول تھا، جو ان گیسوں کے مختلف عمل کی صحیح ترجمانی کر سکیں۔ اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعد زوالکوسکی نے اپنی سائنسی رپورٹ سینٹ پیٹرز برگ کی سوسائٹی برائے طبیعات و کیمیا کو روانہ کر دیں۔
اس سوسائٹی کے ارکان مشہور سائنسدان تھے۔ جب انہوں نے زوالکوسکی کی رپورٹ پڑھیں تو ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا تاثر قائم کریں۔ رپورٹ میں بیان کردہ تمام حقائق درست تھے اور ریاضی کے کلیات بالکل صحیح تھے۔ مگر یہ "دریافتیں" جو گاؤں کے اسکول ماسٹر نے نہایت محنت اور کاوشوں سے عمل میں لائی تھیں۔ اب سے کئی برس پیشتر دوسرے سائنسدان پہلے ہی معلوم کر چکے تھے۔
سوسائٹی کے ارکان کو اس بات پر نہایت تعجب تھا۔ انہوں نے سوچا کہ کیا وہ نوجوان ان کے ساتھ کوئی عملی مذاق کر رہا ہے؟ شروع میں تو ایسا ہی معلوم ہوا لیکن سائنس دانوں نے اس پر مزید غور و خوض کیا اور آخر کار وہ حقیقت کا اندازہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ۔ بیچارہ زوالکوسکی تنہا تحقیقات میں مشغول رہتے ہوئے علم و کمال کے دوسرے مراکز سے قطعی طور پر کٹا ہوا تھا۔ اس کے پاس یہ معلوم کرنے کا کو ذریعہ نہیں تھا کہ جو تحقیقات اب سے پیشتر مکمل ہو چکی ہیں وہ انہی کو دہرا رہا ہے۔
عظیم کیمیا دان ڈیمٹری منڈیلیو سینٹ پیٹرز برگ سوسائٹی کا ایک رکن تھا۔ اسے اس محنتی ذہین اور نوجوان سائنسدان پر بڑا ترس آیا منڈیلیو نے زوالکوسکی کو ایک خط لکھا جس میں پیش کئے ہوئے واقعات سے اس کو آگاہ کیا۔ جب زوالکوسکی کو یہ خبر ملی تو اسے زیادہ افسوس نہیں ہوا۔ اس سے قبل وہ اس سے بھی بڑے مسائل سے عہدہ برآ ہو چکا تھا۔ اپنی قوت سماعت سے محرومی کی بدولت اس نے سخت محنت اور کاوش کی زبردست اہمیت معلوم کر لی تھی۔ "یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا۔" نوجوان اسکول ماسٹر نے صرف یہ جملہ کہا اور دوبارہ اپنی تحقیق میں مشغول ہو گیا۔
تھوڑے عرصے بعد زوالکوسکی نے سوسائٹی کو مزید رپورٹیں روانہ کیں۔ جس کے بعد اسے سوسائٹی کا ایک رکن بنا دیا گیا۔ آخرکار اسے سائنس دان کی حیثیت سے تسلیم کرلیا گیا۔ جس کی کانسٹنٹن زوالکوسکی کو بہت ہی خوشی ہوئی۔ اس کے بعد اس نے خلائی سفر کے مسائل پر اپنی تحقیق کا آغاز کیا۔
ماسکو میں اپنے قیام کے دوران زوالکوسکی نے اسحاق نیوٹن کے قوانین حرکت کے بارے میں کافی معلومات حاصل کر لی تھیں ۔ وہ اس موضوع میں بہت دلچسپی رکھتا تھا۔ اور نیوٹن کے الفاظ کے معنی اس کی سمجھ میں بخوبی آ گئے تھے۔ ایسا انجن جو اپنی خارج کردہ گرم گیسوں کی بدولت مخالف سمت میں دھکا محسوس کر سکے۔ خلائی سفر کے لئے بالکل موزوں رہے گا۔ برسوں کی سخت کاوشوں اور پر احتیاط تحقیقات کے بعد زوالکوسکی نے وہ تمام معلومات اکٹھا کر لیں، جو خلائی جہاز کے تعمیری منصوبے کے لئے ضروری تھیں۔
نوجوان سائنس دان کو اس بات کا علم تھا کہ کرۂ ارض کا ہوائی کرہ بہت زیادہ دبیز نہیں ہے۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ خلا میں کوئی چیز موجود نہیں ہے اور خلا مکمل ہے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جھٹکے کے اصول پر چلنے والے موٹر کو خلا میں سفر کرنے کے لئے آکسیجن کی کثیر مقدار خود اپنے ساتھ لے جانا پڑے گی۔ آکسیجن ہوا میں شامل وہ گیس ہے۔ جو انسان کو سانس لینے کے لئے ضروری ہے۔ اور جس کی مدد کے بغیر کوئی شے جلنے کا فعل انجام نہیں دے سکتی۔
زوالکوسکی کے ذہن میں فوراً راکٹ کا تصور ابھرا۔ کیونکہ بارود میں استعمال ہونے والی ایک شے آکسیجن خارج کرتی ہے۔ کئی برس سے گانزونٹ کے راکٹ روسی فوج میں استعمال کئے جا رہے تھے۔
لیکن زوالکوسکی کو معلوم تھا کہ گانزونٹ کے راکٹ اتنی تیزی سے نہیں جلتے ہیں کہ وہ خلائی جہاز کو وہ رفتار دے سکیں. جو کرہ ارض سے فرار ہونے کے لئے ضروری ہے۔ ایک اچھا ریاضی دان ہونے کے باعث زوالکوسکی نے اس بات کا تخمینہ لگا لیا تھا کہ کوئی ایندھن کس تیز رفتاری سے جل سکتا ہے اور یہ کہ کسی ایندھن کی ایک مقررہ تعداد سے کس قدر قوت پیدا کی جا سکتی ہے۔ اس نے اندازہ کرلیا کہ اگر رقیق ایندھن پٹرولیم کو آکسیجن کی ضروری رسد پہنچائی جاتی رہے تو وہ اتنی قوت پیدا کر سکتا ہے جو جہاز کو ضروری رفتار دے سکے۔
زوالکوسکی کو یہ احساس بھی تھا کہ خلا بازوں کے سانس لینے کے لئے ضروری ہوا جہاز پر ساتھ لے جانا پڑے گی۔ ان خلائی سفروں کی میعاد کئی ہفتہ ہوگی ۔ زوالکوسکی کو علم تھا کہ آکسیجن کی اتنی کثیر مقدار ڈبوں میں بند کرکے ساتھ نہیں لے جائی جا سکتی۔ جیسا کہ گانزونٹ نے منصوبہ بنایا تھا۔ اس کے اس کے برعکس خلا بازوں کی استعمال کی ہوئی آکسیجن کو دوبارہ نئی زندگی عطا کرنی ہوگی تا کہ اسے بار بار استعمال کیا جا سکے۔
سبز پودوں میں یہ خاصیت ہوتی ہے کہ وہ انسانوں کی سانسوں سے خارج ہوتی ہوئی گیس کو اپنے اندر جذب کر لیتے ہیں۔ اور اس کے بدلے آکسیجن کا اخراج کرتے ہیں جن کی انسان کو سانس لینے کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ زوالکوسکی نے فیصلہ کیا کہ اس مسئلہ کا ایک کی ہی حل ہے اور وہ یہ کہ سبز پودوں کا ایک خلائی باغ جہاز کے ہمراہ ہو۔ اس مسئلہ کا اس سے بہتر حل اب تک کوئی دریافت نہیں کر سکا تھا ۔غالباً پہلے خلائی جہاز میں جو انسان کو زہرہ یا مریخ تک لے جائے گا۔ اس قسم کے خلائی باغ موجود ہوں گے۔
1898ء میں کانسٹنٹن زوالکوسکی نے "راکٹ کے ذریعہ کائناتی خلا کی " نامی ایک کتاب لکھی۔ جس میں اس کے بیشتر خیالات اور تصورات درج کئے گئے تھے۔ اس کتاب نے خلائی سفر کے بارے میں ایک نئی سانس کا آغاز کیا، جسے خلا بازی کہا جا سکتا ہے لیکن اس زمانے میں بہت کم سائنس دان روسی زبان سے واقف تھے۔ چنانچہ 1903ء میں جب یہ کتاب شائع ہوئی۔ تو اس کی طرف کسی نے بھی کوئی توجہ نہ دی۔
تقریباً اسی زمانے میں ہرمن گانزونٹ نے اپنی خلائی مشین کے بارے میں تقریر کی تھی اور وہ راکٹی قوت سے چلنے والے خلائی جہاز کے منصوبے کے خالق کی حیثیت سے مشہور ہو گیا تھا۔ اس خبر نے زوالکوسکی کو مایوس نہیں کیا ۔ خاموش طبع اسکول ماسٹر خلائی سفر کے مسائل کے قابل قبول حل تلاش کرنے کی کوششوں میں اپنی زندگی کے دن بسر کرتا رہا۔ زوالکوسکی نے رقیق ایندھن کی قوت سے چلنے والا راکٹ انجن کبھی بھی تعمیر نہیں کیا کیونکہ اس مقصد کے لئے اس کے پاس کافی رقم نہیں تھی تاہم اس کی تصوراتی نظروں نے ان مسائل کو ضرور سمجھ لیا تھا جو مستقبل کے خلائی موجدوں کو پیش آنے والے تھے۔
ان میں سے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ ایک ایسا طریقہ دریافت کیا جائے جس کی مدد سے راکٹ انجنوں کو اس زبردست حرارت سے محفوظ رکھا جائے، جو اس کے جلتے ہوئے ایندھن سے خارج ہوگی ۔ زوالکوسکی کی آخری تحقیقوں میں ایک ایسے راکٹ انجن کی تیاری کا منصوبہ بھی شامل تھا جسے خود اسی کی بہت سرد آکسیجن کی رسد کی مدد سے ٹھنڈا رکھا جا سکے۔
زوالکوسکی کو بڑھاپے میں شہرت نصیب ہوئی ۔ 1920ء میں جرمنی اور امریکہ کے موجدوں نے رقیق ایندھن پر مشتمل چھوٹے چھوٹے راکٹوں کی پرواز کے کامیاب تجربے کئے۔ روسی سائنسدان نے تمام نظریات ایک ایک کرکے صحیح ثابت ہو رہے تھے۔ چنانچہ کانسٹنٹن زوالکوسکی کو پورے روس میں خلائی سفر کا پانی تسلیم کر لیا گیا۔
زوالکوسکی کے تحقیقی کام نے اس طویل جدوجہد کا خاتمہ کر دیا جو خلائی سفر کے لئے موزوں ترین جہاز کی دریافت کے سلسلہ میں عرصہ دراز سے جاری تھا۔ یہ بات تسلیم کر لی گئی تھی کہ راکٹ یہ کام انجام دے سکتے ہیں لیکن اب تک کسی شخص نے بھی ایسے راکٹ کی تعمیر نہیں کی تھی، جو اتنا طاقتور ہو کہ ارضی کشش کو دفع کرکے خلائی سفر کر سکے۔ اب یہ کام انجینیروں کا تھا کہ وہ حقیقی آتشی پروں کی تکمیل کی کامیاب کوشش کریں۔
مصنف: آئی لین - ریمنڈ شوزلر
مترجم : خواجہ ضمیر علی
یونیکوڈ اردو فارمیٹ: جہان سائنس
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں