یہ ترجمہ ماہنامہ طالب علم کے شمارہ جنوری 1985 میں شایع ہوا تھا۔ اس شمارے میں سائنس پر کافی تحریریں شایع کی جاتی تھیں بعد میں اس شمارے کو خالص سائنس کا بنادیا گیا تھا اور اس کا نام بدل کر "سائنس میگزین" کردیا گیا تھا۔
چار سو سال پہلے کا یہ سادہ مقالہ عظیم ماہر فلکیات گلیلیو نے جنوری 1610 میں تحریر کیا تھا
کوئی دس ماہ پہلے ایک رپورٹ کی میرے کانوں میں پڑی کہ ایک ولندیزی نے ایک دوربینی بڑی محنت سے تیار کی ہے جس کی مدد سے دکھائی دینے والی چیزوں کو دیکھا جائے تو خواہ وہ کتنی بھی دور ہوں، دیکھنے والے کو یوں دکھائی دیتی ہیں جیسے بالکل نزدیک آگئی ہوں اور مجھے یہ بتایا گیا ہے کہ یہ دوربین کوئی تخیلاتی کرشمہ نہیں ہے، نہ سنی سنائی افواہ ہے ، بلکہ اس کے حیرت انگیز نظارے بھی ہوئے ہیں جو اس کے سچا ہونے کے بین ثبوت ہیں۔ لیکن بعضوں نے مجھے بتایا ہے کہ یہ کوئی من گھڑت کہانی ہے۔
چند دن کے بعد مجھے اس رپورٹ کی تصدیق ایک خط سے ہوگئی جو ایک رئیس جیکوئیس بودووئیر نے لکھا تھا، جس میں بتایا گیا کہ واقعی ایسی دوربین ایجاد ہوئی ہے۔ یہ خط پڑھ کر میرے کان کھڑے ہوئے اور میں نے سوچا بلکہ پختہ ارادہ کر لیا که دوربین کس اصول پر کام کررہی ہوگی۔ پہلے مجھے اسی اصول کی جستجو کرنے چاہیے، اور پھر مجھے یہ معلوم کرنا چاہیے کہ اس اصول کی بنیاد پر ایک ویسی ہی دوربین کیونکر بنائی جاسکتی ہے۔
چناچہ چند روز ہی میں نظریہ انعطاف کے گہرے مطالعے سے میں دوربین کے اصول کی تہ تک پہنچ گیا۔ میں نے ایک ٹیوب تیار کی۔ یہ ٹیوب سیسے کی تھی ۔ اس کے دونوں سروں پر میں نے شیشے کے عدسےچڑھا دیے۔ ایک شیشے کی سطح پیالہ نما رکھی اور دوسرے شیشے کو محدب رکھا۔ میں نے محدب شیشے سے دیکھا تو دور کی چیزیں نزدیک اور واضح نظر آئیں۔ جب میں نے شیشے کو نظروں سے ہٹاکر خالی آنکھ سے دیکھا اور جانچہ تو فاصلہ کوئی تین گنا تھا اور چیزیں نو گنا بڑی تھیں۔
اب میں نے زیادہ مہارت ، نفاست اور احتیاط سے ایک ا ور دوربین بنائی جس نے چیزوں کو ساٹھ گنا بڑا کرکے دکھایا۔ کرنا خدا کا کیا ہوا کہ نہ تو میرا پیسہ صرف ہوا اور نہ مجھے زیادہ محنت کرنا پڑی اور خود میں ایک ایسا عمدہ آلہ بنانے میں کامیاب ہوگیا کہ اس سے دیکھی ہوئی چیزیں ایک ایک ہزار گنا بڑی نظر آتی تھیں اور خالی آنکھ کی قدرتی طاقت سے جو چیز جتنے فاصلے پر نظر آتی ہے، اس آلے کی مدد سے تیس گنا قریب نظر آنے لگی۔
اس نالے کو سمندر یا خشکی پر استعمال کرنے سے جوجو فوائد حاصل ہوسکتے ہیں یہاں ان کی تعداد اور گنتی گنوانے سے کچھ حاصل نہ ہو گا۔ میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جانے بغیر کہ بعد میں اس کے کیا کیا فوائد حاصل ہوں گے، میں نے اس کا رخ اجرام فلکی کی طرف کر دیا سب سے پہلے میں نے چاند کو دیکھا اتنا نزدیک نظر آیا جیسے ہماری زمین کے نصف قطر کے فاصلے سے بھی کم فاصلے پر ٹکا ہوا ہو ۔ چاند کے بعد میں نے دوسرے اجرام فلکی پر نظر کی۔ میں نے ستارے بھی دیکھے ۔ سیاروں کو بھی دیکھا ان کو اپنے قریب پاکر مجھے اتنی خوشی ہوئی کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا۔
میرے خیال میں اس سارے مشعلے کا اہم ترین حصہ ایسا ہے کہ اسے ظاہر و شائع کرنے سے دنیا والوں کا بھلا ہوگا اور میں منکشف کرتا ہوں کہ میں نے چار سیارے خود دیکھے اور ان کو دریافت کیا جبب سے کہ یہ دنیا بنی ہوئی ہے، اس وقت سے لے کر آج میرے زمانے تک کسی نے ان کو دیکھا تھا نہ دریافت و شناخت کیا تھا۔ میں نے تو ان دو مہینوں کے دوران میں ان کے محل وقوع ان کی قدر کی تبدیلیوں، ان کی حرکات و رفتار اور شکل وہئیت کا بڑا گہرائی سے خود مشاہدہ کیا ہے۔
رواں سال کی سات جنوری کواول شب جب میں نے اپنی دوربین سے مجمع النجوم پرنظر دوڑائیں تو سیارہ مشتری خود بخود میری نگاہ میں آگیا اور چونکہ میری دوربین بہت اعلی اور شاندار تھی اس لیے میں نے آسمانوں میں ایسا ماحول اور منظر دیکھا کہ اس سے پہلے میں نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ میں نے دیکھا کہ تین چھوٹے مگر انتہائی چمکدار سٹارے مشتری کے بالکل قریب واقع ہیں۔ میں ان کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا حیرت کی وجہ یہ ہے کہ وہ تینوں ستارے دائرة البروج کے بالکل متوازی میں خط مستقیم میں خاص فاصلے پر پاس پاس موجود ہیں۔ دوسرے ستاروں سے کہیں زیادہ روشن ہیں، حالانکہ قدر میں اتنے زیادہ نہیں ہیں۔
مشتری سے ان کا مقام اور ان کا آپس میں فاصله محل وقوع یوں تھا۔
مشتری کے مشرق میں دو ستارے اور مغرب میں ایک ستارہ تھا۔ مشرق میں جو ستارہ دور تھا اور جو ستاره مغرب میں تھا یہ دونوں تیسرے سٹارے سے قدرے بڑے نظر آئے۔
مشتری سے ان کے فاصلے اور ان کے آپس کے فاصلوں پر میں نے زیادہ غور نہیں کیا۔ اس لیے نہیں کیا کہ آپ کو صاف ہی بتا دوں میں پہلے ان کو ثوابت سمجھا گیا تھا لیکن دوسری ہی رات یعنی آٹھ جنوری کو میں خوبی قسمت سے اپنی دوربین سے آسمان کا مشاہدہ کررہا تھا کہ اب کے مجھے کوئی اور ہی منظر دکھائی دیا۔ میں نے دیکھا کہ وہی تینوں ستارے اب مشتری کے مغرب میں آگئے تھے اور پچھلی رات کے مقابلے میں مشتری کے بھی بہت قریب آگئے تھے اور ان کا باہمی فاصلہ بھی بالکل یکساں اور برابر تھا۔ ان کا مقام اب یوں نظرآیا۔
اس سے پہلے میں نے کبھی سوچابھی نہ تھا ستارے ایک دوسرے سے دور یا قریب ہوں تو اس کا کیا مطلب و نتیجہ ہوتا ہے۔ لیکن اب میں یہ دیکھ ششدر رہ گیا کہ یہ آخر کیونکر اور کیسے ہوا کہ کل رات تو دو ستارے مشتری کے مشرق میں تھے اور آج رات تینوں کے تینوں اس کے مغرب میں تھے۔
چونکه ثوابت اپنی جگہ نہیں بدلتے اور میں ان تینوں کو ثوابت ہی مان چکا تھا، اس لیے میں نے یہی نتیجہ نکالا کہ مشتری سیارہ ان تین ستاروں کے درمیان اپنی کسی مخصوص کج رفتاری کے باعث گھوم گیا ہے۔ لیکن یہ کج رفتاری ایسی تھی جس کا تذکرہ آج تک علمائے فلکیات نے مشتری کے باب میں پہلے نہ کیا تھا۔
اب میرا اضطراب بڑھ گیا اور اصل حقیقت معلوم کرنے کے شوق میں اگلی رات کا انتظار کیا لیکن مجھے اس رات مایوسی کا سامنا کرنا پڑا۔ کیونکہ آسمان پر ہر طرف بادل ہی بادل چھائے ہوئے تھے۔
دس جنوری کی رات کو ان تینوں ستاروں کا محل وقوع یوں نظر آیا۔
دو ستارے تو مشتری کے مشرق میں تھے اور تیسرا ستاره غائب تھا۔ وہ یقینا مشتری کے عقب میں چلا گیا ہوگا۔ وہ دونوں دکھائی دینے والے ستارے اسی طرح دائره البروج کے متوازی اور مشتری کے عین سیدھ میں تھے۔
انتہائی غور و فکر کے بعد میں نے دریافت کر لیا کہ محل و وقوع کی ان تبدیلیوں کا تعلق مشتری سے نہیں ہے بلکہ وہ تینوں ستارے ہی گھوم پھر کر اپنا مقام تبدیل کر رہے تھے ۔ تب میں نے فیصد کیا کہ ان کا مشاہدہ زیاده صحت، توجہ اور احتیاط سے کرنا چاہئے۔
چناچہ گیارہ جنوری کی رات کو مجھے یہ منظر نظر آیا۔یعنی آج بھی تیسرا ستارہ غائب تھا۔ دو ستارے اب بھی مشتری کے مشرق ہی میں تھے ، لیکن جو ستارہ مشتری کے قریب تھا، اس کا فاصلہ کل کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہوگیا تھا اور جو ستاره دور تھا، وہ قریب والے ستارے سے دوگنا نظر آرہا تھا۔ جب کہ پہلی رات کو وہ قدر و ضخامت میں یکساں اور برابر نظر آرہے تھے۔ پس میں اس نیتیجے پر پہنچا اور میں نے بلا جھجک فیصلہ کر لیا کہ تين ستارے ایسے ہیں جو مشتری کے گرد گھوم رہے ہیں جس طرح کہ زہرہ اور عطارد سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بعد میں عرصے تک میں ہر رات ان کا بغور مشاہدہ کرتا رہا اور جو میں نے فیصلہ کیا تھا وہ روز روشن کی طرح عیاں ہو گیا، بلکہ معلوم ہوا کہ تین نہیں، چار ستارے مشتری کے گرد اپنی مقرره گردشیں پوری کر رہے ہیں۔
مشتری کے چار سیارے سنگی ساتھیوں کے بارے میں یہ ہیں میرے مشاہدات جو میں نے مہ جنوری میں آسمان کی گہرائیوں میں کیے اگرچہ مجھے اب تک معلوم نہیں ہوسکا کہ ان سیاروں کے مدار کی کیا کیفیت ہے۔
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #طالب_علم #سید_قاسم_محمود #سائنسی_کتب #سائنسی_کتابیں #سائنسی_رسائل #دوربین #گلیلیو #مشتری
#jahanescience
اس رسالے کو یہاں سے ڈاونلوڈ کیا جاسکتا ہے۔
آن لائن پڑھنے کے لئے نیچے دیکھیں:
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں