آئیے زکام کے وائرس کا قریبی جائزہ لیتے ہیں!
ہم آپ کو موسم سرما کے اس وائرس کے بارے میں بتائیں گے کہ یہ کس طرح سے ہمارے مدافعتی نظام کو جل دے کر اس سے ایک قدم آگے رہتا ہے
"موسمی زکام کا انجکشن (فلو شاٹ) ہر سال بنایا جاتا ہے تاکہ اس زکام کے وائرس کا خاتمہ کیا جائے جو آبادی میں مٹر گشت کر رہا ہوتا ہے"
وبائی مرض
زکام کا وائرس ایک برس میں پوری دنیا میں 50 لاکھ لوگوں کو متاثر کرتا ہے، یہ ہوا میں موجود نمی کے قطروں میں سفر کرتا ہوا ایک آدمی سے دوسرے آدمی تک پہنچتا ہے اور ٹھنڈ، بخار، گلے کی سوزش، بہتی ناک، سرد درد اور پٹھوں میں درد کا سبب بنتا ہے۔
زکام کا وائرس بتدریج تبدیل ہوتا ہے۔ اس بدلنے کے عمل کو "اینٹی جینک ڈرفٹ -antigenic drift" سے جانا جاتا ہے۔ یہ عمل اس وقت ہوتا ہے جب وائرس اپنی نقل بناتا ہے۔ نقل بناتے ہوئے وائرس کے جینوم یا لونی مادے میں ایک واحد نیوکلیوٹائیڈ کی غلطی واقع ہوتی ہے، اس سے پروٹین میں بہت ہی معمولی سی تبدیلی ہو جاتی ہے۔ اس پروٹین کا کام وائرس کو باہر سے ملفوف رکھتا ہے۔ انسانی مدافعتی نظام ان پروٹینز کو پہچانتا ہے اور ان کا سراغ لگا کر ان کو تباہ کر دیتا ہے، تاہم جب ان پروٹینز میں تبدیلی واقع ہو جاتی ہے تو جسم کی وائرس کو شناخت کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے جس سے لوگوں کا مدافعتی نظام کمزور پڑ جاتا ہے۔
وائرس اپنے جینوم یا لونی مادے اور پروٹینز میں صرف بلکی پھلکی تبدیلیاں ہی نہیں کرتا بلکہ کبھی کبھار اس میں بہت زیادہ تبدیلی بھی ہو جاتی ہے۔ اگر متاثرہ شخص میں ایک سے زیادہ نوع کے زکام کے وائرس گھس جائیں اور کسی ایک خلئے کے اندر ان کا ملاپ ہو جائے، تو اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ ان کا جینوم یا لونی مادے ایک دوسرے میں مل جائے گا، اور نتیجتاً ایک نیا تبدیل شدہ زکام کا وائرس پیدا ہوگا۔ ایسے واقعات شاذونادر ہی ہوتے ہیں، تاہم یہ زکام کی نئی خطرناک قسم کو بنا سکتے ہیں۔ 2009ء میں پھیلنے والی سوائن فلو (H1N1) کی وباء میں چار مختلف وائرسوں کی جینیاتی معلومات موجود تھی۔ ان چار میں سے ایک انسانی، ایک طیوری (یعنی پرندوں) اور دو سور کے زکام کے وائرس تھے۔
اب آپ کو سمجھ میں آرہا ہوگا کہ آیا کیوں ہر قسم کے زکام کے لئے ایک آفاقی قسم کی ویکسین بنانا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ فی الوقت تو ایک موسمی زکام کی ویکسین ہر سال بنائی جاتی ہے تاکہ اس زکام کے وائرس کا خاتمہ کیا جائے جو آبادی میں مٹر گشت کر رہا ہوتا ہے۔ بعد میں آنے والے ہر سال کے لئے عام طور پر وائرس اپنے آپ کو اس حد تک تبدیل کر چکا ہوتا ہے کہ ویکسین اپنا اثر نہیں کرتی۔
بہرحال نئی تحقیق بتاتی ہے کہ مدافعتی نظام کے کچھ خلیے وائرس کے قلب کے کچھ پروٹین کی شناخت کر سکتے ہیں۔ یہ وائرس کے لئے درست طور پر کام کرنے کے لئے بہت اہمیت رکھتے ہیں اور ان میں تبدیلی بہت آہستہ ہوتی ہے۔ لہٰذا ان اہم پروٹین کے خلاف ویکسین بنانے سے وائرس سے لڑنے کے لئے ٹی سیلز کو طویل مدتی مدافعت پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
زکام کے وائرس اے بی سی کے بارے میں جانئے
انفلوئنزا اے
انفلوئنزا اے قدرتی طور پر پانی کے جنگلی پرندوں میں پلتا ہے۔ پالتو مرغیوں میں منتقلی سے انسانوں میں اس وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور متاثرہ صورت میں دوغلی انواع کے انفیکشن پھیلتے ہیں۔ 1918ء کا اسپینی فلو H1N1 اور 2004ء کا H5N1 برڈ فلو یہی انفلوئنزا اے تھے۔
انفلوئنزا بی
انفلوئنزا بی انسانوں میں پلتی ہے اور یہ زیادہ عام نہیں ہوتی۔ اس میں تبدیلی سست رو ہوتی ہے۔ اس میں تبدیلی کی شرح بہت سست ہوتی ہے جس کی وجہ سے زیادہ طور لوگ اس سے مدافعت حاصل کر لیتے ہیں، تاہم یہ مدافعت ہمیشہ نہیں چلتی۔ یہ بہت ہی شاذونادر کسی دوسری نوع کو متاثر کرتی ہے، اسی وجہ سے نئی، تبدیل شدہ نسلیں جو وبائی صورتیں اختیار کریں پیدا نہیں ہوتیں۔
انفلوئنزا سی
یہ صرف ہلکی بیماری پیدا کرتی ہے، اور زیادہ تر بالغان اپنی زندگی کے کسی بھی حصے میں اس سے ضرور بیمار ہوئے ہوں گے. یہ انسانوں اور سوروں دونوں کو بیمار کرتی ہے، تاہم یہ انفلوئنزا اے اور بی سے کہیں زیادہ کم پھیلتی ہے۔ یہ مقامی طور پر وباء کی صورت اختیار کر سکتی ہے تاہم عالمگیر وباء نہیں بنتی۔
زیر تذکرہ وائرس
چلیں ایک نظر اس ساخت پر ڈالیں جو ایک واحد مکمل مُتعدی وائرسی ذرَّے کو بناتی ہے
آر این اے
وائرس کا جینیاتی مادہ رائیبونیوکلک ایسڈ (آر این اے) کی کئی لڑیوں میں ذخیرہ ہوتا ہے۔
ہیماگلوٹین
نوک دار پروٹین ہیماگلوٹین وائرس کے باہر ملفوف ہوتا ہے جس سے وائرس کو گلے اور پھیپھڑوں کے متاثرہ خلیہ سے چپکنے اور داخل ہونے میں مدد ملتی ہے۔
میٹرکس
جھلی کے نیچے پروٹین کا خول ہوتا ہے، جو وائرس کو مضبوطی اور ہئیت عطا کرتا ہے۔
نیورامنی ڈیز
یہ سطحی پروٹین اصل میں ایک خامرہ ہے، یہ وائرس کے خلیہ کی مدافعت کو ختم کرنے میں مدد کرتا ہے تاکہ وائرس خلیاتی جھلی کو توڑ ڈالے۔
لیپڈ بائی لیئر
وائرس کی بیرونی پرت روغنی جھلی ہوتی ہے۔ اس کو وائرس بناتا نہیں بلکہ میزبان خلیہ کی جھلی سے چراتا ہے۔ ریلینزا اور ٹیمی فلو جیسی ادویات اس کے اس عمل میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔
وبائی زکام
1918ء
اسپینی فلو، H1N1 نے پوری دنیا میں 50 کروڑ لوگوں کو متاثر اور 5 کروڑ لوگوں کو ہلاک کیا۔ یہ آرکٹک تک پھیل گیا تھا۔
2009ء
2009ء کا وبائی زکام H1N1 وائرس کی نئی نسل تھا۔ اس نے دنیا بھر میں 18,000 لوگوں کو ہلاک کیا۔
1977ء
روسی زکام H1N1 نے زیادہ تر بچوں پر حملہ کیا کیونکہ بالغوں پر اسی قسم کا وائرس پہلے ہی حملہ کرچکا تھا۔
1968ء
ہانگ کانگ کے زکام H3N2 کی جینیاتی معلومات 1957ء کے ایشیائی وبائی زکام سے حاصل کردہ تھی۔
1957ء
ایشیائی زکام H2N2 پہلے پورے چین میں پھیلا اور اس کے بعد پوری دنیا میں، اور دس لاکھ سے زائد لوگوں کو موت سے ہمکنار کیا۔
کیا آپ کو معلوم ہے؟
- انفلوئنزا اے وائرس کا نام ان دو اہم پروٹین کے نام پر پڑا ہے جو اس کی بیرونی جھلی کو ڈھانپتے ہیں
- H1N1 سوائن فلو سال 2009-2010 میں عالمگیر وباء کا سبب بنا، تاہم اس نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا کہ امید کی جارہی تھی۔
مکمل پوسٹ یہاں سے ملاحظہ کیجیے:
#جہان_سائنس #اردو #سائنس #ترجمہ #وائرس #وائرس #انفلوئنزا #نزلہ_زکام #نزلہ #زکام
#jahanescience
0 comments:
ایک تبصرہ شائع کریں